Saturday, October 25, 2014

کمانڈ اینڈ کنٹرول کا حیرت انگیز مظاہرہ۔۔۔نصرت جاوید



قادری صاحب سمیت کسی شخص کے پاس اس سوال کا تشفی بخش جواب موجود نظر نہیں آرہا کہ70دنوں کی مسلسل گھن گرج کے بعد انہوں نے اچانک اسلام آبادمیں انقلاب کے نام پرلگائے کیمپ کیوں اٹھا لئے۔






Urdu Poetry




دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی
ناصر رضا کاظمی
دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپاہےخانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اوریہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہرمیں رات جاگتی ہے  ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کسی چیز کی کمی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

Urdu Best Ghazal

چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
محسن بھوپالی


 For More >>>>>

Best Urdu Ghazal

فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میرتقی میر

Friday, October 24, 2014

بھاشا ڈیم بھارت کے نشانے پر


وہ لوگ جو بھارت سے یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے پڑوسیوں والے تعلقات قائم کرے گا ان کے لئے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت امریکی انتظامیہ کو یہ خط لکھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے بھاشا ڈیم کے لئے فنڈز فراہم کرے اور نہ ہی کوئی امریکی کمپنی اس منصوبے میں حصہ لے۔۔۔۔۔۔۔

بھاشا ڈیم بھارت کے نشانے پر


وہ لوگ جو بھارت سے یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے پڑوسیوں والے تعلقات قائم کرے گا ان کے لئے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت امریکی انتظامیہ کو یہ خط لکھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے بھاشا ڈیم کے لئے فنڈز فراہم کرے اور نہ ہی کوئی امریکی کمپنی اس منصوبے میں حصہ لے پاکستان جہاں بھاشا ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہے وہ متنازعہ علاقہ ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں واشنگٹن میں ایک کانفرنس کی میزبانی کی ہے جس میں بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈز کی فراہمی اور دوسرے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ مگر سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے اپنے سفارت کاروں کو بھی یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ امریکہ کو بھاشا ڈیم کی تعمیر میں امداد دینے سے باز رکھنے کی کوششیں کریں۔ ایک طرف تو بھارت پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر ڈیم پر ڈیم بنا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان جسے توانائی کے سنگین بحران کا سامنا ہے اسے بجلی کے بحران میں مبتلا رکھنے کیلئے وہ پانچ ہزار میگاواٹ کی گنجائش والے بھاشا ڈیم کی مخالفت کر رہا ہے۔
ایک چینی فرم نے مظفر آباد سے نیلم تک چند سال قبل سڑک کو اپ گریڈ کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ یہ سڑک وادی نیلم کو مظفر آباد سے منسلک کرتی ہے۔ جب چینی فرم نے سڑک کی اپ گریڈیشن شروع کی تو بھارت نے چین سے احتجاج کیا کہ چین ایک متنازعہ علاقے میں کام کر رہا ہے یہ کام فوراً بند کر دیا جائے لیکن چینی حکومت نے بھارت کو اس معاملے پر سخت وارننگ دی کہ وہ سڑک کی اپ گریڈیشن کے معاملے میں مداخلت سے باز رہے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ چین مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو بھارتی پاسپورٹ پر ویزے جاری نہیں کرتا بلکہ وہ الگ دستاویز پر انہیں ویزے دیتا ہے۔ بھارت اس معاملے پر کئی مرتبہ چین سے احتجاج بھی کر چکا ہے لیکن چین نے بھارت کے اس احتجاج کو ہمیشہ مسترد کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے یہ بھارت کا حصہ نہیں ہے۔
پاکستان کے بارے میں بھارت خبث باطن کے اظہار کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا۔ ان دنوں ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر اس نے جو بلااشتعال گولہ باری شروع کر رکھی ہے۔ وہ بھی اس کی پاکستان کے بارے میں پالیسی کا اظہار ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو یہ خوش گمانی تھی کہ اگر بھارت کے بارے میں خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا جائے تو وہ پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے گا۔ وزیراعظم نواز شریف بھارت کے نئے وزیراعظم نریندرا مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے بھارت گئے تھے یہ بھی خیرسگالی کا اظہار تھا لیکن اس کے جواب میں بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے خلاف ممبئی حملوں کے حوالے سے ایک چارج شیٹ پڑھ کر سنا ڈالی اور مطالبہ کیا کہ پاکستان ممبئی کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ 
ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کی ہدایت بھارت کے وزیراعظم ہاؤس سے دی گئی۔ بھارتی وزیراعظم سے منسوب یہ بیان بھی سامنے آ چکا ہے کہ پاکستان کو گہرا زخم لگایا جائے اب بھارت نے امریکہ پر زور دینا شروع کیا ہے کہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر میں پاکستان کی مدد نہ کرے۔ نریندرا مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان میں بعض پالیسی ساز اس امید کا اظہار کر رہے تھے کہ بی جے پی کی پچھلی حکومت کی طرح یہ حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرے گی اور پاکستان کے مثبت جذبات کا مثبت جواب دے گی لیکن نریندرا مودی حکومت نے پاکستان کے ساتھ جو معاندانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھنا چاہتی ہے۔ بڑی طاقتیں تو مودی حکومت کو یہ مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ پاکستان سمیت اپنے پڑوسی ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنائے لیکن مودی حکومت تو دوسرے راستے پر چل پڑی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں کیا اٹھایا ہے کہ بھارت تو اب دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ بھاشا ڈیم کی مخالفت کر کے بھارت پاکستان کو معاشی اعتبار سے زک پہنچانا چاہتا ہے۔ جو حلقے بھارت کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہیں انہیں اب اپنی سوچ پر نظرثانی کر لینی چاہئے۔

ریالٹی۔۔۔۔۔۔جاویدچوہدری



اب ہم دھرنوں کی حقیقت دیکھتے ہیں، میں اپنے آپ سےآغازکرتاہوں،ریالٹی کیاہے؟






Wednesday, October 22, 2014

Urdu Poetry

ہوش و حواس و تاب و تواںداغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
داغ دہلوی

پیدا وہ بات کر تجھے روئیں دوسرے
رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا
عزیز لکھنوی

Tuesday, October 21, 2014

یہ توبہرحال ہونا ہی تھا )جاویدچوہدری(




یہ توبہرحال ہونا ہی تھا    )جاویدچوہدری(






انسانی پسینہ اوربجلی: )سعداللہ جان برق(




انسانی پسینہ اوربجلی:    )سعداللہ جان برق(

آٹھ اسمارٹ فونز جن کے منفرد فیچرز کا کوئی مقابلہ نہیں


آج کے عہد میں بیشتر اسمارٹ فونز میں ہارڈویئر اور سافٹ ویئر اپنے حریف ڈیوائسز سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اور ایک سے دوسرے فون کے درمیان بہت کم فرق ہوتا ہے، مگر کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو اس بھیڑچال کی دوڑ سے باہر نکل کر اپنے اسمارٹ فونز میں ایسے منفرد فیچرز متعارف کراتی ہیں جو کسی اور ڈیوائس میں نہیں ہوتی۔
ایسے ہی چند اسمارٹ فونز کے بارے میں جانے جو اپنے منفرد فیچرز کی بدولت دیگر سے بالکل الگ ہیں۔

 سام سنگ گلیکسی نوٹ ایج
سام سنگ گلیکسی نوٹ ایج کی خاصیب اس کی اسکرین کا بینٹ یا خم کھا جاتا ہے، اس نئے اسمارٹ فون کی ڈسپلے اسکرین چھوٹی ہے جو دائیں کونے کی جانب آجاتی ہے جس سے مین ڈسپلے پر چیزوں کو زیادہ وضاحت سے دیکھا جاسکتا ہے، سام سنگ نے اس چھوٹے ڈسپلے پینل کے حامل اسمارٹ فون کسٹم آئزڈ گیم بھی ڈیزائن کر رکھی ہے۔
ایل جی جی تھری
ایل جی کے جی تھری اسمارٹ فون کی خاصیت اس کا لیزر آٹو فوکس کیمرہ ہے، یہ پہلی بار ہے کہ کسی اسمارٹ فون میں فوکسنگ سسٹم کو استعمال کیا گیا ہے، اس سے کم طاقت کی لیزر نکل کر مطلوبہ چیز کے بہترین اینگل پر فوکس ہوجاتی ہے جس سے بہترین تصویر لینا آسان ہوجاتا ہے چاہے وہ چیز، انسان یا جانور حرکت ہی کیوں نہ کررہا ہو مگر تصویر کا معیار متاثر نہیں ہوتا۔
(ایچ ٹی سی ون(ایم ایٹ
ایچ ٹی سی ون (ایم ایٹ) دنیا کا واحد اسمارٹ فون ہے جس کے پشت پر دو کیمرے نصب ہیں، ایک چھوٹا رئیر کیمرہ کسی تفصیل کی باریکیوں کو نمایاں کرتا ہے، جیسا دوسرے کئی اسمارٹ فونز میں بھی ہوتا ہے، تاہم اس فون کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں تصویر لینے کے بعد بھی زیادہ باریکی کو ایڈ کیا جاسکتا ہے، ایسا ہونے کی وجہ دوسرے کیمرے کی موجودگی ہے جو مرکزی کیمرے کے ساتھ ہی اس منظر کو اپنی آنکھ میں محفوظ کرلیتا ہے جس سے تصویر کو زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
امیزون فائر فون
امیزون نے حال ہی میں اپنا پہلا اسمارٹ فون متعارف کرایا ہے جس کی خاصیت پانچ فرنٹ کیمرے ہیں، اسکرین سے ذرا اوپر موجود ایک کیمرہ تو روایتی طریقے سے کام کرتا ہے جبکہ دیگر چار کیمرے جو موبائل کے چاروں کونوں میں ہیں، صارف کی آنکھوں کو اسکین کرتے ہیں، جس کے بعد آئی ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے صارف مینیو میں آنکھوں کی مدد سے اس پر اپنی مرضی کا کوئی بھی کام کرسکتے ہیں۔
ایل جی جی فلیکس
ایل جی کا جی فلیکس اسمارٹ فون دنیا کا واحد ہیڈسیٹ ہے جو خودکار طور پر اپنا علاج کرتا ہے، اگر اس فون پر خراش آجائے یا یہ گر جائے تو یہ تمام خراشیں یا خرابیاں یہ اپنے طور پر مرمت کرلیتا ہے۔
یوٹا فون
یوٹا فون ایک ایسا اسمارٹ فون ہے جس میں ایل سی ڈی اسکرین کو سامنے اور پشت پر ای لنک ڈسپلے کو استعمال کیا گیا ہے، اس دوسری اسکرین کے ذریعے اس ڈیوائس کو جیب میں آجانے والے ای بک ریڈر کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نوکیا لومیا 1020
نوکیا لومیا 1020 وہ اسمارٹ فون ہے جس میں اب تک سبسے زیادہ ریزولوشن والا 41 میگاپکسلز کا کیمرہ استعمال کیا گیا ہے، یہ کسی بھی اسمارٹ فون میں نصب سب سے بہترین کیمرہ ہے، اس سے پہلے نوکیا کے ہی ایک ماڈل 808 میں ایسا ہی کیمرہ نصب کیا گیا تھا مگر یہ فون اب تیار نہیں کیا جاتا۔
جنوی ایلفی ایس 5.5
جنوئی ایلفی ایس 5.5 دنیا کا سب سے پتلا اسمارٹ فون ہے جس کی مجموعی موٹائی صرف 5.5 ملی میٹر ہے اور اس کی اسکرین 5 انچ کی ہے۔

Sunday, October 19, 2014

Urdu Column , Javed Chaudhry

Urdu Best Ghazal

Afsana, Kafan

کفن
(منشی پریم چند)

جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔
گھسو نے کہا "معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔ سار ا دن تڑپتے ہو گیا، جا دیکھ تو آ۔"
مادھو دردناک لہجے میں بولا "مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں۔"
"تو بڑا بیدرد ہے بے! سال بھر جس کے ساتن جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی۔"
"تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جا تا۔"
چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹے بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا۔ اس لئے اسے کوئی رکھتا ہی نہ تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا اور جب تک وہ پیسے رہتے، دونوں ادھر ادھر ما رے مارے پھرتے۔ جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے یا کوئی مزدوری تلاش کرتے۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی۔ کاشتکاروں کا گاؤں تھا۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔ یہ ان کی خُلقی صفت تھی۔ عجیب زندگی تھی ان کی۔ گھر میں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی کو ڈھانکے ہوئے دنیا کی فکروں سے آزاد۔ قرض سے لدے ہوئے۔ گالیاں بھی کھاتے، مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امید نہ ہونے پر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھاتے یا دن پانچ ایکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے۔ گھسو نے اسی زاہدانہ انداز میں ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے نقش قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے ہوئے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے۔ گھسو کی بیوی کا تو مدت ہوئی انتقال ہو گیا تھا۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔ پسائی کر کے گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان میں دوگنی مزدوری مانگتے۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ زہ میں مر رہی تھی اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں۔
گھسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا "جا دیکھ تو کیا حالت ہے" اس کی چڑیل کا پھنساؤ ہو گا اور کیا۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے۔ کس کے گھر سے آئے۔"
مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھسو آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا۔ بولا:
"مجھے وہاں ڈر لگتا ہے۔"
"ڈر کس بات کا ہے؟
میں تو یہاں ہوں ہی"
"تو تمہیں جا کر دیکھو نا۔"
"میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں اور پھر مجھ سے لجائے گی کہ نہیں، کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا، آج اس کا اگھڑا ہوا بدن دیکھوں۔ اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہو گی۔ مجھے دیکھ لے گی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکے گی۔"
"میں سوچتا ہوں کہ کوئی بال بچہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ سونٹھ، گڑ، تیل، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں۔"
"سب کچھ آ جائے گا۔ بھگوان بچہ دیں تو، جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں، وہی تب بلا کر دیں گے۔ میرے تو لڑکے ہوئے، گھر میں کچھ بھی نہ تھا، مگر اس طرح ہر بار کام چل گیا۔"
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم تو کہیں گے گھسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔ اس لئے یہ جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کر رہا تھا پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے۔
دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے۔ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصہ تو زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا تھا لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے۔ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے۔ اس لئے دونوں جلد جلد نگل جاتے تھے حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔
گھسو کو اس وقت ٹھا کر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی، وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔ وہ بولا "وہ بھوج نہیں بھولتا۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھرا پیٹ نہیں ملا۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں، سب کو۔ چھوٹے بڑے سب نے پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی چٹنی، رائتہ، تین طرح کے سوکھے ساگ، ایک رسے دار ترکاری، دہی، چٹنی، مٹھائی اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔ کوئی روک نہیں تھی جو چیز چاہو مانگو اور جتنا چاہو کھاؤ۔ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا، مگر پروسنے والے ہیں کہ سامنے گرم گول گول مہکتی ہوئی کچوریاں ڈال دیتے ہیں۔ منع کرتے ہیں۔ نہیں چاہئے مگر وہ ہیں کہ دیئے جاتے ہیں اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بڑا پان بھی ملا مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ جھٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھا کر۔"
مادھو نے ان تکلفات کا مزا لیتے ہوئے کہا "اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا۔"
"اب کوئی کیا کھلائے گا؟" وہ جمانا دوسرا تھا۔ اب تو سب کو کھبایت سوجھتی ہے۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو، کریا کرم میں مت کھرچ کرو۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے۔ مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے۔ ہاں کھرچ میں کبھایت سوجھتی ہے۔"
"تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہوں گی۔"
بیس سے جیادہ کھائی تھیں۔"
"میں پچاس کھا جاتا۔"
"پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہو ں گی، اچھا پٹھا تھا۔ تو اس کا آدھا بھی نہیں ہے۔" آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں پیٹ میں ڈال کر سو رہے جیسے دو بڑے بڑے اژدھا کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور بڑھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔
صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔
مادھو بھاگا ہوا گھسو کے پاس آیا اور پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے۔ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور رسمِ قدیم کے مطابق غمزدوں کی تشفی کرنے لگے۔
مگر زیادہ رونے دھونے کا موقع نہ تھا کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی۔ گھر میں تو پیسہ اس طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں بانس۔
باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمینداروں کے پاس گئے۔ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے۔ چوری کی علت میں، وعدے پر کام نہ کرنے کی علت میں۔ پوچھا "کیا ہے بے گھسوا۔ روتا کیوں ہے۔ اب تو تیری صورت ہی نظر نہیں آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے۔"
گھسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ "سرکار بڑی بپت میں ہوں۔ مادھو کی گھر والی رات گجر گئی۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار۔ آدھی رات تک ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا مگر وہ ہمیں دگا دے گئی۔ اب کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں رہا مالک۔ تباہ ہو گئے۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں۔ اب آپ کے سوا اس کی مٹی کون پار لگائے گا۔ ہمارے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا۔ سرکار ہی کی دیا ہو گی تو اس کی مٹی اٹھے گی۔ آپ کے سوا اور کس کے دوار پر جاؤں۔"
زمیندار صاحب رحمدل آدمی تھے مگر گھسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی میں تو آیا کہہ دیں "چل دور ہو یہاں سے لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا۔ آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر رہا ہے حرام خور کہیں کا بدمعاش۔" مگر یہ غصہ یا انتقام کا موقع نہیں تھا۔ طوعاً و کرہاً دو روپے نکال کر پھینک دئے مگر تشفی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا۔ اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ اتارا ہو۔
جب زمیندار صاحب نے دو روپے دیئے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرأت کیونکر ہوتی۔ گھسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دیئے کسی نے چار آنے۔ ایک گھنٹے میں گھسو کے پاس پانچ روپیہ کی معقول رقم جمع ہو گئی۔ کسی نے غلہ دے دیا، کسی نے لکڑی اور دوپہر کو گھسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے اور لوگ بانس وانس کاٹنے لگے۔
گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ آ کر لاش کو دیکھتی تھیں اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔
بازار میں پہنچ کر گھسو بولا۔ "لکڑی تو اسے جلانے بھر کی مل گئی ہے کیوں مادھو۔"
مادھو بولا "ہاں لکڑی تو بہت ہے اب کفن چاہئے۔"
"تو کوئی ہلکا سا کفن لے لیں۔"
"ہاں اور کیا! لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی رات کو کفن کون دیکھتا ہے۔"
"کیسا برا روا ج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا نہ ملے، اسے مرنے پر نیا کفن چاہئے۔"
اور کیا رکھا رہتا ہے۔ یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔"
دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر گھومتے رہے۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ دونوں اتفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے آ پہنچے اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت میں کھڑے رہے۔ پھر گھسو نے ایک بوتل شراب لی۔ کچھ گزک لی اور دونوں برآمدے میں بیٹھ کر پینے لگے۔
کئی کچناں پیہم پینے کے بعد دونوں سرور میں آ گئے۔
گھسو بولا "کفن لگانے سے کیا ملتا۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔"
مادھو آسمان کی طرف دیکھ کر بولا گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو۔ "دنیا کا دستور ہے۔ یہی لوگ باسنوں کو ہجاروں روپے کیوں دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے۔ پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں۔"
"بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے پھونکیں، ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے۔"
"لیکن لوگوں کو کیا جواب دو گے؟ لو گ پوچھیں گے کہ کفن کہاں ہے؟"
گھسو ہنسا۔ "کہہ دیں گے کہ روپے کمر سے کھسک گئے بہت ڈھونڈا۔ ملے نہیں۔"
مادھو بھی ہنسا۔ اس غیر متوقع خوش نصیبی پر قدرت کو اس طرح شکست دینے پر بولا۔ "بڑی اچھی تھی بیچاری مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔"
آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی۔ گھسو نے دو سیر پوریاں منگوائیں، گوشت اور سالن اور چٹ پٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں۔
شراب خانے کے سامنے دکان تھی، مادھو لپک کر دو پتیلوں میں ساری چیزیں لے آیا۔ پورے ڈیڑھ روپے خرچ ہو گئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ رہے۔"
دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوریاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو انہوں نے بہت پہلے طے کر لیا تھا۔ گھسو فلسفیانہ انداز سے بولا۔ "ہماری آتما پرسن ہو رہی ہے تو کیا اسے پن نہ ہو گا۔"
مادھو نے فرق صورت جھکا کر تصدیق کی"جرور سے جرور ہو گا۔ بھگوان تم انتر جامی (علیم) ہو۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔"
ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی۔ بولا "کیوں دادا ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائیں گے ہی" گھسو نے اس طفلانہ سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ مادھو کی طرف پر ملامت انداز سے دیکھا۔
"جو وہاں ہم لوگوں سے پوچھے گی کہ تم نے ہمیں کفن کیوں نہ دیا، تو کیا کہیں گے؟"
"کہیں گے تمہارا سر۔"
"پوچھے گی تو جرور۔"
"تو کیسے جانتا ہے اسے کفن نہ ملے گا؟ مجھے اب گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھاتا رہا ہوں۔ اس کو کفن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا، جو ہم دیں گے۔"
مادھو کو یقین نہ آیا۔ "بو لا کون دے گا؟ روپے تو تم نے چٹ کر دئے۔"
گھسو تیز ہو گیا۔ "میں کہتا ہوں اسے کفن ملے گا تو مانتا کیوں نہیں؟"
"کون دے گا، بتاتے کیوں نہیں؟"۔
"وہی لوگ دیں گے جنہوں نے اب کے دیا۔ ہاں وہ روپے ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اس طرح بیٹھے پئیں گے اور کفن تیسری بار ملے گا۔"
جوں جوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی، میخانے کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی۔ کوئی گاتا تھا، کوئی بہکتا تھا، کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا، کوئی اپنے دوست کے منہ سے ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا، ہوا میں نشہ۔ کتنے تو چلو میں ہی الو ہو جاتے ہیں۔ یہاں آتے تھے تو صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا سے مسرور ہوتے تھے۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں یا زندہ در گور ہیں۔
اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کے چسکیاں لے رہے تھے۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں دونوں، پوری بوتل بیچ میں ہے۔
کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوریوں کا تیل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا، جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور "پینے" کے غرور اور مسرت اور ولولہ کا، اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔ گھسو نے کہا "لے جا کھوب کھا اور آشیر باد دے"
جس کی کمائی تھی وہ تو مر گئی مگر تیرا اشیر باد اسے جرور پہنچ جائے گا روئیں روئیں سے اشیر باد دے بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔"
مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا "وہ بیکنٹھ میں جائے گی۔ دادا بیکنٹھ کی رانی بنے گی۔" گھسو کھڑا ہو گیا اور جیسے مسرت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا۔ "ہاں بیٹا بیکنٹھ میں نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لو گ جائیں گے، جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کے دھونے کے لئے گنگا میں جاتے ہیں اور مندروں میں جل چڑھاتے ہیں۔"
یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلانشہ کی خاصیت سے یاس اور غم کا دورہ ہوا۔ مادھو بولا "مگر داد بیچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنی دکھ جھیل کر۔" وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا۔
گھسو نے سمجھایا "کیوں روتا ہے بیٹا! کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا کے موہ کے بندھن توڑ دئے۔"
اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگے
        ٹھگنی کیوں نیناں جھمکا دے ٹھگنی
سارا میخانہ محوِ تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش مخمور محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے۔ پھر دونوں ناچنے لگے۔ اچھلے بھی، کودے بھی، گرے بھی، مٹکے بھی، بھاؤ بھی بتائے اور آخر نشے سے بد مست ہو کر وہیں گر پڑے۔
������

Thursday, October 16, 2014

Afsana, Gandasa by Ahmed Nadeen Qasmi


گنڈاسا
(احمد ندیم قاسمی)

اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی "چوکیاں" چن لی تھیں۔ "پڑکوڈی" کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہوں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سے سفید پھینٹھئے ان کے چپڑے ہوئے لانبے لابنے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے۔ وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جا رہا تھا۔ مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتری تھیں۔ یہ نامور کھلاڑی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑوا رہے تھے کہ ان کے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک نے بالکل تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا، پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آئے، انہوں نے بجتے ہوئے ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی اپنی چوکیوں کے سامنے ناچتے کودتے ہوئے بھاگنے لگے اور پھر آناً فاناً سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی۔"مولا کہاں ہے؟"
مولا ہی کا کھیل دیکھنے تو یہ لوگ دور دراز کے دیہات سے کھنچے چلے آئے تھے۔ "مولا کا جوڑی وال تاجا بھی تو نہیں!" دوسرا بھنور پیدا ہوا لوگ پوربی چوکوں کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے بڑھنے لگے، جما ہوا پڑ ٹوٹ گیا۔ منتظمین نے لمبے لمبے بیدوں اور لاٹھیوں کو زمین پر مار مار کر بڑھتے ہوئے ہجوم کے سامنے گرد کا طوفان اڑانے کی کوشش کی کہ پڑ کا ٹوٹنا اچھا شگون نہ تھا مگر جب یہ سرگوشی ان کے کانوں میں سیروں بارود بھرا ہوا ایک گولا ایک چکرا دینے والے دھماکے سے پھٹ پڑا۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ لوگ پڑ کی چوکور حدوں کی طرف واپس جانے لگے۔ مولا اپنے جوڑی وال تاجے کے ساتھ میدان میں آگیا۔ اس نے پھندنوں اور ڈوریوں سے سجے اور لدے ہوئے ڈھول کے گرد بڑے وقار سے تین چکر کاٹے اور پھر ڈھول کو پوروں سے چھو کر یا علیؓ کا نعرہ لگانے کے لئے ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ ایک آواز ڈھولوں کی دھما دھم چیرتی پھاڑتی اس کے سینے پر گنڈاسا بن کر پڑی مولے"اے مولے بیٹے۔ تیرا باپ قتل ہو گیا!"
مولا کا اٹھا ہوا ہاتھ سانپ کے پھن کی طرح لہرا گیا اور پھر ایک دم جیسے اس کے قدموں میں نہتے نکل آئے۔ "رنگے نے تیرے باپ کو ادھیڑ ڈالا ہے گنڈاسے سے!" ان کی ماں کی آواز نے اس کا تعاقب کیا!
پڑ ٹو ٹ گیا۔ ڈھول رک گئے۔ کھلاڑی جلدی جلدی کپڑے پہننے لگے۔ ہجوم میں افراتفری پیدا ہوئی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ مولا کے جسم کا تانبا گاؤں کی گلیوں میں کونڈتے بکھیرتا اڑا جا رہا تھا۔ بہت پیچھے اس کا جوڑی وال تاجا اپنے اور مولا کے کپڑوں کی گٹھڑی سینے سے لگائے آ رہا تھا اور پھر اس کے پیچھے ایک خوف زدہ ہجوم تھا۔ جس گاؤں میں کسی شخص کو ننگے سر پھرنے کا حوصلہ نہ ہو سکتا تھا وہاں مولا صرف ایک گلابی لنگوٹ باندھے پہناریوں کی قطاروں، بھیڑوں، بکریوں کے ریوڑوں کو چیرتا ہوا لپکا جا رہا تھا اور جب وہ رنگے کی چوپال کے بالکل سامنے پہنچا تو سامنے ایک اور ہجوم میں سے پیر نور شاہ نکلے اور مولا کو للکار کر بولے۔ "رک جا مولے!"
مولا لپکا گیا مگر پھر ایک دم جیسے اس کے قدم جکڑ لئے گئے اور وہ بت کی طرح جم کر رہ گیا۔ پیر نور شاہ اس کے قریب آئے اور اپنی پاٹ دار آواز میں بولے۔ "تو آگے نہیں جائے گا مولا!"
ہانپتا ہوا مولا کچھ دیر پیر نور شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔ پھر بولا "آگے نہیں جاؤں گا پیر جی تو زندہ کیوں رہوں گا؟"۔
"میں کہہ رہا ہوں" پیر جی "میں پر زور دیتے ہوئے دبدبے سے بولے۔"
مولا ہانپنے کے باوجود ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔ "تو پھر میرے منہ پر کالک بھی مل ڈالئے اور ناک بھی کاٹ ڈالئے میری، مجھے تو اپنے باپ کے خون کا بدلہ چکانا ہے پیر جی۔ بھیڑ بکریوں کی بات ہوتی تو میں آپ کے کہنے پر یہیں سے پلٹ جاتا۔"
مولا نے گردن کو بڑے زور سے جھٹکا دے کر رنگے کے چوپال کی طرف دیکھا۔ رنگا اور اس کے بیٹے بٹھوں سر گنڈاسے چڑھائے چوپائے پر تنے کھڑے تھے۔ رنگے کا بڑا لڑکا بولا۔
"آؤ بیٹے آؤ۔ گنڈاسے کے ایک ہی وار سے پھٹے ہوئے پیٹ میں سے انتڑیوں کا ڈھیرا نہ اگل ڈالوں تو قادا نام نہیں، میرا گنڈاسا جلد باز ہے اور کبڈی کھیلنے والے لاڈلے بیٹے باپ کے قتل کا بدلا نہیں لیتے، روتے ہیں اور کفن کا لٹھا ڈھونڈنے چلے جاتے ہیں۔"
مولا جیسے بات ختم ہونے کے انتظار میں تھا۔ ایک ہی رفتار میں چوپال کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔ مگر اب کبڈی کے میدان کا ہجوم بھی پہنچ گیا تھا اور گاؤں کا گاؤں اس کے راستے میں حائل ہو گیا تھا۔ جسم پر تیل چپڑ رکھا تھا اس لئے وہ روکنے والوں کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا مگر پھر جکڑ لیا جاتا۔ ہجوم کا ایک حصہ رنگے اور اس کے تینوں بیٹوں کو بھی روک رہا تھا۔ چار گنڈاسے ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکا رہے تھے کہ اچانک جیسے سارے ہجوم کو سانپ سو نگ گیا۔ پیر نور شاہ قرآن مجید کو دونوں ہاتھوں میں بلند کئے چوپال کی سیٹرھیوں پر آئے اور چلائے ۔  اس کلام اللہ کا واسطہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ ورنہ بدبختو گاؤں کا گاؤں کٹ مرے گا۔ جاؤ تمہیں خدا اور رسولؑ کا واسطہ، قرآن پاک کا واسطہ، جاؤ، چلے جاؤ۔"
لوگ سر جھکا کر ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ مولا نے جلدی سے تائے سے پٹکا لے کر ادب سے اپنے گھٹنوں کو چھپا لیا اور سیٹرھیوں پر سے اتر گیا۔ پیر صاحب قرآن مجید کو بغل میں لئے اس کے پاس آئے اور بولے۔"اللہ تعالی تمہیں صبر دے اور آج کے اس نیک کام کا اجر دے۔"
مولا آگے بڑھ گیا۔ تاجا اس کے ساتھ تھا اور جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچے تو مولا نے پلٹ کر رنگے کی چوپال پر ایک نظر ڈالی۔
"تم تو رو رہے ہو مولے؟" تاجے نے بڑے دکھ سے کہا۔
اور مولا نے اپنے ننگے بازو کو آنکھوں پر رگڑ کر کہا۔ "تو کیا اب روؤں بھی نہیں؟"
"لوگ کیا کہیں گے؟" تاجے نے مشورہ دیا۔
"ہاں تاجے!" مولا نے دوسری بار بازو آنکھوں پر رگڑا۔ "میں بھی تو یہی سوچ رہا ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے، میرے باپ کے خون پر مکھیاں اڑ رہی ہیں اور میں یہاں گلی میں ڈورے ہوئے کتے کی طرح دم دبائے بھاگا جا رہا ہوں ماں کے گھٹنے سے لگ کر رونے کے لئے!"
لیکن مولا ماں کے گھٹنے سے لگ کر رویا نہیں۔ وہ گھر کے دالان میں داخل ہوا تو رشتہ دار اس کے باپ کی لاش تھانے اٹھا لے جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ منہ پیٹتی اور بال نوچتی ماں اس کے پاس آئی اور "شرم تو نہیں آتی" کہہ کر منہ پھیر کر لاش کے پاس چلی گئی۔ مولا کے تیور اسی طرح تنے رہے۔ اس نے بڑھ کر باپ کی لاش کو کندھا دیا اور برادری کے ساتھ روانہ ہو گیا۔
اور ابھی لاش تھانے نہیں پہنچی ہو گی کہ رنگے کی چوپال پر قیامت مچ گئی۔ رنگا چوپال کی سیڑھیوں پر سے اترکر سامنے اپنے گھر میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ کہیں سے ایک گنڈاسا لپکا اور انتڑیوں کا ایک ڈھیر اس کے پھٹے ہوئے پیٹ سے باہر ابل کر اس کے گھر کی دہلیز پر بھاپ چھوڑنے لگا۔ کافی دیر کو افراتفری کے بعد رنگے کے بیٹے گھوڑوں پر سوار ہو کر رپٹ کے لئے گاؤں سے نکلے، مگر جب وہ تھانے پہنچے تو یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے کہ جس شخص کے خلاف وہ رپٹ لکھوانے آئے ہیں وہ اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھا تسبیح پر قل ھو اللہ کا ورد کر رہا تھا۔ تھانے دار کے ساتھ انہوں نے بہت ہیر پھیر کی کوشش کی اور اپنے باپ کا قاتل مولا ہی کو ٹھہرایا مگر تھانیدار نے انہیں سمجھایا کہ "خواہ مخواہ اپنے باپ کے قاتل کو ضائع کر بیٹھو گے، کوئی عقل کی بات کرو۔ ادھر یہ میرے پاس اپنے باپ کے قتل کی رپٹ لکھوا رہا ہے ادھر تمہارے باپ کے پیٹ میں گنڈاسا بھی بھونک آیا ہے۔"
آخر دونوں طرف سے چالان ہوئے، لیکن دونوں قتلوں کا کوئی چشم دید ثبوت نہ ملنے کی بناء پر طرفین بری ہو گئے اور جس روز مولا رہا ہو کر گاؤں میں آیا تو اپنی ماں سے ماتھے پر ایک طویل بوسہ ثبت کرانے کے بعد سب سے پہلے تاجے کے ہاں گیا۔ اسے بھینچ کر گلے لگایا اور کہا۔ "اس روز تم اور تمہارا گھوڑا میرے کام نہ آتے تو آج میں پھانسی کی رسی میں توری کی طرح لٹک رہا ہوتا۔ تمہاری جان کی قسم جب میں نے رنگے کے پیٹ کو کھول کر رکاب میں پاؤں رکھا ہے، آندھی بن گیا خدا کی قسم اسی لئے تو لاش ابھی تھانے بھی نہیں پہنچی تھی کہ میں ہاتھ جھاڑ کر واپس بھی آگیا۔"
سارے گاؤں کو معلوم تھا کہ رنگے کا قاتل مولا ہی ہے، مگر مولے کے چند عزیزوں اور تاجے کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے پھر ایک دن گاؤں میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ مولا کا باپ تو رنگے کے بڑے بیٹے قادر کے گنڈاسے سے مرا تھا رنگا تو صرف ہشکار رہا تھا بیٹوں کو۔ رات کو چوپالوں اور گھروں میں یہ موضوع چلتا رہا اور صبح کو پتہ چلا کہ قادر اپنے کوٹھے کی چھت پر مردہ پایا گیا اور وہ بھی یوں کہ جب اس کے بھائیوں پھلے اور گلے نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا سر لڑھک کر نیچے گرا اور پرنالے تک لڑھکتا چلا گیا، رپٹ لکھوائی اور مولا پھر گرفتار ہو گیا۔ مرچوں کا دھواں پیا، تپتی دوپہروں میں لوہے کی چادر پر کھڑا رہا۔ کتنی راتیں اسے اونگھنے تک نہ دیا گیا مگر وہ اقبالی نہ ہوا اور آخر مہینوں کے بعد رہا ہو کر گاؤں میں آ نکلا اور جب اپنے آنگن میں قدم رکھا تو ماں بھاگی ہو ئی آئی۔ اس کے ماتھے پر طویل بوسہ لیا اور بولی۔ "ابھی دو اور باقی ہیں میرے لال۔ رنگے کا کوئی نام لیوا نہ رہے، تو جبھی بتیس دھاریں بخشوں گی۔ میرے دودھ میں تیرے باپ کا خون تھا۔ مولے اور تیرے خون میں میرا دودھ ہے اور تیرے گنڈاسے پر میں نے زنگ نہیں چڑھنے دیا۔ "مولا اب علاقے بھر کی ہیبت بن گیا تھا۔ اس کی مونچھوں میں دو دو بل آ گئے تھے۔ کانوں میں سونے کی بڑی بڑی بالیاں، خوشبودار تیل اس کے لہرئیے بالوں میں آگ کی قلمیں سی جگائے رکھتا تھا۔ ہاتھی دانت کا ہلالی کنگھا اتر کر اس کی کنپٹی پر چمکنے لگا تھا۔ وہ گلیوں میں چلتا تو پٹھے کے تہبند کا کم سے کم آدھا گز تو اس کے عقب میں لوٹتا ہوا جاتا۔ باریک ململ کا پٹکا اس کے کندھے پر پڑا رہتا اور اکثر اس کا سرا گر کر زمین پر گھسٹنے لگتا۔ اور گھسٹتا چلا جاتا۔ مولا کے ہاتھ میں ہمیشہ اس کے قد سے بھی لمبی تلی پلی لٹھ ہوتی اور جب وہ گلی کے کسی موڑ یا کسی چوراہے پر بیٹھتا تو یہ لٹھ جس انداز سے اس کے گھٹنے سے آ لگتی اسی انداز سے لگی رہتی اور گلی میں سے گزرنے والوں کو اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مولا کی لٹھ ایک طرف سرکانے کے لئے کہہ سکیں۔ اگر کبھی لٹھ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تن گئی تو لو گ آتے، مولا کی طرف دیکھتے اور پلٹ کر کسی دوسری گلی میں چلے جاتے۔ عورتوں اور بچوں نے تو وہ گلیاں ہی چھوڑ دی تھیں جہاں مولا بیٹھنے کا عادی تھا۔ مشکل یہ تھی کہ مولا کی لٹھ پر سے الانگنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا۔ ایک بار کسی اجنبی نوجوان کا اس گلی میں سے گزر ہوا۔ مولا اس وقت ایک دیوار سے لگا لٹھ سے دوسری دیوار کو کریدے جا رہا تھا۔ اجنبی آیا اور لٹھ پر سے الانگ گیا۔ ایکا ایکی مولا نے بپھر کر ٹینک میں سے گنڈاسا نکالا اور لٹھ پر چڑھا کر بولا۔"ٹھہر جاؤ چھوکرے، جانتے ہو تم نے کس کی لٹھ الانگی ہے یہ مولا کی لٹھ ہے۔ مولے گنڈاسے والے کی۔"
نوجوان مولا کا نام سنتے ہی یک لخت زرد پڑ گیا اور ہولے سے بولا۔ "مجھے پتہ نہیں تھا، مولے۔" مولا نے گنڈاسا اتار کر ٹینک میں اڑس لیا اور لٹھ کے ایک سرے کو نوجوان کے پیٹ پر ہلکے سے دبا کر بولا۔ "تو پھر جا کر اپنا کام کر۔" اور پھروہ لٹھ کو یہاں سے وہاں تک پھیلا کر بیٹھ گیا۔
مولا کا لباس، اس کی چال، اس کی مونچھیں اور سب سے زیادہ اس کا لا ابالی انداز، یہ سب پہلے گاؤں کے فیشن میں داخل ہوئے اور پھر علاقے بھر کے فیشن پر اثر انداز ہوئے لیکن مولا کی جو چیز فیشن میں داخل نہ ہو سکی وہ اس کی لانبی لٹھ تھی۔ تیل پلی، پیتل کے کوکوں سے اٹی ہوئی، لوہے کی شاموں میں لپٹی ہوئی، گلیوں کے کنکروں پر بجتی اور یہاں سے وہاں تک پھیل کر آنے والوں کو پلٹا دینے والی لٹھ اور پھر وہ گنڈاسا جس کی میان مولا کی ٹینک تھی اور جس پر اس کی ماں زنگ کا ایک نقطہ تک نہیں دیکھ سکتی تھی۔
لوگ کہتے تھے کہ مولا گلیوں کے نکڑوں پر لٹھ پھیلائے اور گنڈاسا چھپائے گلے اور پھلے کی راہ تکتا ہے۔ قادرے کے قتل اور مولے کی رہائی کے بعد پھلا فوج میں بھرتی ہو کر چلا گیا تھا اور گلے نے علاقہ کے مشہور رسہ گیر چوھدری مظفر الٰہی کے ہاں پناہ لی تھی، جہاں وہ چوھدری کے دوسرے ملازموں کے ساتھ چناب اور راوی پر سے بیل اور گائیں چوری کر کے لاتا۔ چوھدری مظفر اس مال کو منڈیوں میں بیچ کر امیروں، وزیروں اور لیڈروں کی بڑی بڑی دعوتیں کرتا اور اخباروں میں نام چھپواتا اور جب چناب اور راوی کے کھوجی مویشیوں کے کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چوھدری مظفر کے قصبے کے قریب پہنچتے تو جی میں کہتے۔ "ہمارا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا! انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چودھری کے گھر تک جا پہنچے تو پھر کچھ دیر بعد لوگ مویشیوں کی بجائے خود کھوجیوں کا سراغ لگاتے پھریں گے اور لگا نہ پائیں گے۔ وہ چوھدری کے خوف کے مارے قصبے کے ایک طرف سے نکل کر اور تھلوں کے ریتے میں پہنچ کر یہ کہتے ہوئے واپس آ جاتے "کھروں کے نشان یہاں سے غائب ہو رہے ہیں۔"
مولا نے چوھدری مظفر اور اس کے پھیلے ہوئے بازوؤں کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اسے کچھ ایسا لگتا تھا کہ جیسے علاقہ بھر میں صرف یہ چوھدری ہی ہے جو اس کی لٹھ الانگ سکتا ہے لیکن فی الحال اسے رنگے کے دونوں بیٹوں کا انتظار تھا۔
تاجے نے بڑے بھائیوں کی طرح مولے کو ڈانٹا "اور کچھ نہیں تو اپنی زمینوں کی نگرانی کر لیا کر، یہ کیا بات ہوئی کہ صبح سے شام تک گلیوں میں لٹھ پھیلائے بیٹھے ہیں اور میراثیوں، نائیوں سے خدمتیں لی جا رہی ہیں۔ تو شاید نہیں جانتا پر جان لے تو اس میں تیرا ہی بھلا ہے کہ مائیں بچوں کو تیرا نام لے کر ڈرانے لگی ہیں، لڑکیاں تو تیرا نام سنتے ہی تھوک دیتی ہیں، کسی کو بد دعا دینی ہو تو کہتی ہیں اللہ کرے تجھے مولا بیاہ کر لے جائے۔ سنتے ہو مولے!"
لیکن مولا تو جس بھٹی میں گودا تھا اس میں پک کر پختہ ہو چکا تھا۔ بولا "ابے جا تاجے اپنا کام کر، گاؤں بھر کی گالیاں سمیٹ کر میرے سامنے ان کا ڈھیر لگانے آیا ہے؟ دوستی رکھنا بڑی جی داری کی بات ہے پٹھے، تیرا جی چھوٹ گیا ہے تو میری آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتا ہے۔ جا اپنا کام کر، میرے گنڈاسے کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی جااس نے لاٹھی کو کنکروں پر بجایا اور گلی کے سامنے والے مکان میں میراثی کو بانگ لگائی۔ "ابے اب تک چلم تازہ نہیں کر چکا الو کے پٹھے جا کر گھر والوں کی گود میں سو گیا چلم لا۔"
تاجا پلٹ گیا مگر گلی کے موڑ پر رک گیا اور مڑ کر مولے کو کچھ یوں دیکھا جیسے اس کی جواں مرگی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔
مولا کنکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا اٹھا اور لٹھ کو اپنے پیچھے گھسیٹتا تاجے کے پاس آ کر بولا دیکھ تاجے مجھے ایسا لگتا ہے تو مجھ پر ترس کھا رہا ہے اس لئے کہ کسی زمانے میں تیری یاری تھی پر اب یہ یاری ٹوٹ گئی ہے تاجے تو میرا ساتھ نہیں دے سکتا تو پھر ایسی یاری کو لے کر چاٹنا ہے۔ میرے باپ کا خون اتنا سستا نہیں تھا کہ رنگے اور اس کے ایک ہی بیٹے کے خون سے حساب چک جائے، میرا گنڈاسا تو ابھی اس کے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں تک پہنچے گا، اس لئے جا اپنا کام کر۔ تیری میری یار ختم۔ اس لئے مجھ پر ترس نہ کھایا کر، کوئی مجھ پر ترس کھائے تو آنچ میرے گنڈاسے پر جا پہنچتی ہے جا۔"
واپس آ کر مولا نے میراثی سے چلم لے کر کش لگایا تو سلفہ ابھر کر بکھر گیا۔ ایک چنگاری مولا کے ہاتھ پر گری اور ایک لمحہ تک وہیں چمکتی رہی۔ میراثی نے چنگاری کو جھاڑنا چاہا تو مولا نے اس کے ہاتھ پر اس زور سے ہاتھ مارا کہ میراثی بل کھا رہ گیا اور ہاتھ کو ران اور پنڈلی میں دبا کر ایک طرف ہٹ گیااور مولا گرجا۔ "ترس کھاتا ہے حرامزادہ۔"
اس نے چلم اٹھا کر سامنے دیوار پر پٹخ دی اور لٹھ اٹھا کر ایک طرف چل دیا۔
لوگوں نے مولا کو ایک نئی گلی کے چوراہے پر بیٹھے دیکھا تو چونکے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ عورتیں سر پر گھڑے رکھے آئیں اور "ہائیں" کرتی واپس چلی گئیں۔ مولا کی لٹھ یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور لوگوں کے خیال میں اس پر خون سوار تھا۔
مولا اس وقت دور مسجد کے مینار پر بیٹھی ہوئی چیل کو تکے جا رہا تھا۔ اچانک اسے کنکروں پر لٹھ کے بجنے کی آواز آئی۔ چونک کراس نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی نے اس کی لٹھ اٹھا کر دیوار کے ساتھ رکھ دی ہے اور ان لانبی سرخ مرچوں کو چن رہی ہے جو جھکتے ہوئے اس کے سر پر رکھی ہوئی گٹھڑی میں سے گر گئی تھیں۔ مولا سناٹے میں آگیا لٹھ کو الانگنا تو ایک طرف رہا اس نے یعنی ایک عورت ذات نے لٹھ کو گندے چیتھڑے کی طرح اٹھا کر پرے ڈال دیا ہے اور اب بڑے اطمینان سے مولا کے سامنے بیٹھی مرچیں چن رہی ہے اور جب مولا نے کڑک کر کہا۔ "جانتی ہو تم نے کس کی لاٹھی پر ہاتھ رکھا ہے جانتی ہو میں کون ہوں تو اس نے ہاتھ بلند کر کے چنی ہوئی مرچیں گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے کہا کوئی سڑی لگتے ہو۔"
مولا مارے غصے کے اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکی بھی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرمی سے بولی اسی لئے تو میں نے تمہاری لٹھ تمہارے سر پر نہیں دے ماری ایسے لٹے لٹے سے لگتے تھے مجھے تو تم پر ترس آگیا تھا۔"
"تر س آگیا تھا تمہیں مولا پر؟ مولا دھاڑا۔
"مولا!"لڑکی نے گٹھڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور ذرا سی چونکی۔
"ہاں، مولا، گنڈاسے والا" مولا نے ٹھسے سے کہا اور وہ ذرا سی مسکرا کے گلی میں جانے لگی۔ مولا کچھ دیر وہاں چپ چاپ کھڑا رہا اور پھر ایک سانس لے کر دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ لٹھ کو سامنے کی دیوار تک پھیلا لیا تو پرلی طرف سے ادھیڑ عمر کی ایک عورت آتی دکھائی دی۔ مولا کو دیکھ کر ٹھٹکی۔ مولا نے لٹھ اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور بولا۔ "آ جاؤ ماسی، آ جاؤ میں تمہیں کھا تھوڑی جاؤں گا۔"
حواس باختہ عورت آئی اور مولے کے پاس سے گزرتے ہوئے بولی۔ "کیسا جھوٹ بکتے ہیں لوگ، کہتے ہیں جہاں مولا بخش بیٹھا ہو وہاں سے باؤ کتا بھی دبک کر گزرتا ہے، پر تو نے میرے لئے اپنی لٹھ۔"
"کون کہتا ہے؟" مولا اٹھ کھڑا ہوا۔
"سب کہتے ہیں، سارا گاؤں کہتا ہے، ابھی ابھی کنویں پر یہی باتیں ہو رہی تھیں، پر میں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مولا بخش"
لیکن مولا اب تک اس گلی میں لپک کر گیا تھا جس میں ابھی ابھی نوجوان لڑکی گئی تھی۔ وہ تیز تیز چلتا گیا اور آخر دور لمبی گلی کے سرے پر وہی لڑکی جاتی نظر آئی، وہ بھاگنے لگا۔ آنگنوں میں بیٹھی ہوئی عورتیں دروازوں تک آ گئیں اور بچے چھتوں پر چڑھ گئے۔ مولا کا گلی سے بھاگ کر نکلنا کسی حادثے کا پیش خیمہ سمجھا گیا۔ لڑکی نے بھی مولا کے قدموں کی چاپ سن لی تھی، وہ پلٹی اور پھر وہیں جم کر کھڑ ی رہ گئی۔ اس نے بس اتنا ہی کیا کہ گٹھڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھا م لیا، چند مرچیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح اس کے پاؤں پر بکھر گئیں۔
"میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔" مولا پکارا۔ "کچھ نہیں کہوں گا تمہیں۔"
لڑکی بولی۔ "میں ڈر کے نہیں رکی۔ ڈریں میرے دشمن۔"
مولا رک گیا، پھر ہولے ہولے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور بولا۔ "بس اتنا بتا دو تم ہو کون؟"
لڑکی ذرا سا مسکرا دی۔
عقب سے کسی بڑھیا کی آواز آئی۔ "یہ رنگے کے چھوٹے بیٹے کی منگیتر راجو ہے، مولا بخش۔"
مولا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راجو کو دیکھنے لگا۔ اسے راجو کے پاس رنگا اور رنگے کا سارا خاندان کھڑا نظر آیا۔ اس کا ہاتھ ٹینک تک گیا اور پھر رسے کی طرح لٹک گیا۔ راجو پلٹ کر بڑی متوازن رفتار سے چلنے لگی۔
مولا نے لاٹھی ایک طرف پھینک دی اور بولا۔ "ٹھہرو راجو، یہ اپنی مرچیں لیتی جاؤ۔"
راجو رک گئی۔ مولا نے جھک کر ایک ایک مرچ چن لی اور پھر اپنے ہاتھ سے انہیں راجو کی گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے بولا۔ "تمہیں مجھ پر ترس آیا تھا نا راجو؟"۔
لیکن راجو ایک دم سنجیدہ ہو گئی اور اپنے راستے پر ہولی۔ مولا بھی واپس جانے لگا۔ کچھ دور ہی گیا تھا کہ بڑھیا نے اسے پکارا۔ "یہ تمہاری لٹھ تو یہیں رکھی رہ گئی مولا بخش!"
مولا پلٹا اور لٹھ لیتے ہوئے بڑھیا سے پوچھا۔
"ماسی! یہ لڑکی راجو کیا یہی کی رہنے والی ہے؟ میں نے تو اسے کبھی نہیں دیکھا۔"
"یہیں کی ہے بھی بیٹا اور نہیں بھی۔" بڑھیا بولی۔ "اس کے باپ نے لام میں دونوں بیٹوں کے مرنے کے بعد جب دیکھا کہ وہ روز ہل اٹھا کر اتنی دور کھیتوں میں نہیں جا سکتا تو گاتن والے گھر کی چھت اکھیڑی اور یہاں سے یوں سمجھو کہ کوئی دو ڈھائی کوس دور ایک ڈھوک بنا لی۔ وہیں راجو اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے، تیسرے چوتھے دن گاؤں میں سودا سلف خریدنے آ جاتی ہے اور بس۔"
مولا جواب میں صرف "ہوں" کہہ کر واپس چلا گیا، لیکن گاؤں بھر میں یہ خبر آندھی کی طرح پھیل گئی کہ آج مولا اپنی لٹھ ایک جگہ رکھ کر بھول گیا۔ باتوں باتوں میں راجو کا ایک دو بار نام آیا مگر دب گیا۔ رنگے کے گھرانے اور مولا کے درمیان صرف گنڈاسے کا رشتہ تھا نا اور راجو رنگے ہی کے بیٹے کی منگیتر تھی اور اپنی جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔"
اس واقعہ کے بعد مولا گلیوں سے غائب ہو گیا۔ سارا دن گھر میں بیٹھا لاٹھی سے دالان کی مٹی کریدتا رہتا اور کبھی باہر جاتا بھی تو کھیتوں چراگاہوں میں پھرپھرا کر واپس آ جاتا۔ ماں اس کے رویے پر چونکی مگر صرف چونکنے پر اکتفا کی۔ وہ جانتی تھی کہ مولا کے سر پر بہت سے خون سوار ہیں، وہ بھی جو بہا دئے گئے اور وہ بھی جو بہائے نہ جا سکے۔
یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ نقارے پٹ پٹا کر خاموش ہو گئے تھے۔ گھروں میں سحری کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ دہی بلونے اور توے پر روٹیوں کے پڑنے کی آواز مندروں کی گھنٹیوں کی طرح پر اسرار معلوم ہو رہی تھیں۔ مولا کی ماں بھی چولہا جلائے بیٹھی تھی اور مولا مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر لیٹا آسمان کو گھورے جا رہا تھا۔ یکا یک کسی گلی میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ مولا نے فوراً لٹھ پر گنڈاسا چڑھایا اور چھت پر سے اتر کر گلی میں بھاگا۔ ہر طرف گھروں میں لالٹینیں نکلی آ رہی تھیں اور شور بڑھ رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر مولا کو معلوم ہوا کہ تین مسافر جو نیزوں، برچھیوں سے لیس تھے، بہت سے بیلوں اور گائے بھینسوں کو گلی میں سے ہنکائے لئے جا رہے تھے کہ چوکیدار نے انہیں ٹوکا اور جواب میں انہوں نے چوکیدار کو گالی دے کر کہا کہ یہ مال چوھدری مظفر الٰہی کا ہے، یہ گلی تو خیر ایک ذلیل سے گاؤں کی گلی ہے، چوھدری کا مال تو لاہور کی ٹھنڈک سڑک پر سے بھی گزرے تو کوئی اف نہ کرے۔
مولا کو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے چوھدری مظفر خود، بہ نفسِ نفیس گاؤں کی اس گلی میں کھڑا اس سے گنڈاسا چھیننا چاہتا ہے، کڑک کر بولا۔ "چوری کا یہ مال میرے گاؤں سے نہیں گزرے گا، چاہے یہ چوھدری مظفر کا ہو چاہے لاٹ صاحب کا۔ یہ مال چھوڑ کر چپکے سے اپنی راہ لو اور اپنی جان کے دشمن نہ بنو!" اس نے لٹھ کر جھکا کر گنڈاسے کو لالٹینوں کی روشنی میں چمکایا۔ "جاؤ۔"
مولا گھرے ہوئے مویشیوں کو لٹھ سے ایک طرف ہنکانے لگا۔ "جا کر کہہ دو اپنے چوھدری سے کہ مولا گنڈاسے نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور اب جاؤ اپنا کام کرو۔"
مسافروں نے مولا کے ساتھ سارے ہجوم کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو چپ چاپ کھسک گئے۔ مولا سارے مال کو اپنے گھر لے آیا اور سحری کھاتے ہوئے ماں سے کہا کہ "یہ سب بے زبان ہمارے مہمان ہیں، ان کے مالک پرسوں تک آ نکلیں گے کہیں سے اور گاؤں کی عزت میری عزت ہے ماں۔" مالک دوسرے ہی دن دوپہر کو پہنچ گئے۔۔
یہ غریب کسان اور مزارعے کوسوں کی مسافتیں طے کر کے کھوجیوں کی ناز برداریاں کرتے یہاں تک پہنچے تھے اور یہ سوچتے آ رہے تھے کہ اگر ان کا مال چوھدری کے حلقۂ اثر تک پہنچ گیا تو پھر کیا ہو گا اور جب مولا ان کا مال ان کے حوالے کر رہا تھا تو سارا گاؤں باہر گلی میں جمع ہو گیا تھا اور اس ہجوم میں راجو بھی تھی۔ اس نے اپنے سر پر اینڈوا جما کر مٹی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اور منتشر ہوتے ہوئے ہجوم میں جب راجو مولا کے پاس سے گزری تو مولا نے کہا۔ "آج بہت دنوں بعد گاؤں میں آئی ہو راجو۔"
"کیوں؟" اس نے کچھ یوں کہا جیسے "میں کسی سے ڈرتی تھوڑی ہوں" کا تاثر پیدا کرنا چاہتی ہو۔ میں تو کل آئی تھی اور پرسوں اور ترسوں بھی۔ ترسوں تھوم پیاز خریدنے آئی۔ پرسوں بابا کو حکیم کے پاس لائی، کل ویسے ہی آ گئیں اور آج یہ گھی بیچنے آئی ہوں۔"
"کل ویسے ہی کیوں آ گئیں؟" مولا نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
"ویسے ہی بس جی چاہا آ گئے، سہیلیوں سے ملے اور چلے گئے، کیوں؟"
"ویسے ہی" مولا نے بجھ کر کہا، پھر ایک دم اسے ایک خیال آیا۔ "یہ گھی بیچو گی؟"
"ہاں بیچنا تو ہے، پر تیرے ہاتھ نہیں بیچوں گی۔"
"کیوں؟"
"تیرے ہاتھوں میں میرے رشتہ داروں کا خون ہے۔"
مولا کو ایک دم خیال آیا کہ وہ اپنی لٹھ کو دالان میں اور گنڈاسے کو بستر تلے رکھ کر بھول آیا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چل سی ہونے لگی۔ اس نے گلی میں ایک کنکر اٹھایا اور اسے انگلیوں میں مسلنے لگا۔
راجو جانے کے لئے مڑی تو مولا ایک دم بولا۔ "دیکھو راجو میرے ہاتھوں پر خون ہے ہی اور ان پر ابھی جانے کتنا اور خون چڑھے گا، پر تمہیں گھی بیچنا ہے اور مجھے خریدنا ہے، میرے ہاتھ نہ بیچو، میری ماں کے ہاتھ بیچ دو۔"
راجو کچھ سوچ کر بولی"چلوآؤ"
مولا آگے آگے چلنے لگا۔ جاتے جاتے جانے اسے وہم سا گزرا کہ راجو اس کی پیٹھ اور پٹوں کو گھورے جا رہی ہے۔ ایک دم اس نے مڑ کر دیکھا راجو گلی میں چگتے ہوئے مرغی کے چوزوں کو بڑے غور سے دیکھتی ہوئی آ رہی تھی۔ وہ فوراً بولا"یہ چوزے میرے ہیں۔"
"ہوں گے۔" راجو بولی۔
مولا اب آنگن میں داخل ہو چکا تھا، بولا "ماں یہ سب گھی خرید لو، میرے مہمان آنے والے ہیں تھوڑے دنوں میں۔"
راجو نے برتن اتار کر اس کے دہانے پر سے کپڑا کھولا تاکہ بڑھیا گھی سونگھ لے، مگر وہ اندر چلی گئی تھی ترازو لینے اور مولا نے دیکھا کہ راجو کی کنپٹیوں پر سنہرے روئیں ہیں اور اس کی پلکیں یوں کمانوں کی طرح مڑی ہوئی ہیں جیسے اٹھیں گی تو اس کی بھنووں کو مس کر لیں گی اور ان پلکوں پر گرد کے ذرے ہیں اور اس کے ناک پر پسینے کے ننھے ننھے سوئی کے ناکے سے قطرے چمک رہے ہیں اور نتھنوں میں کچھ ایسی کیفیت ہے جیسے گھی کے بجائے گلاب کے پھول سونگھ رہی ہو۔ اس کے اوپر ہونٹ کی نازک محراب پر بھی پسینہ ہے اور ٹھوڑی اور نچلے ہونٹ کے درمیان ایک تل ہے جو کچھ یوں اچٹا ہوا لگ رہا ہے جیسے پھونک مارنے سے اڑ جائے گا۔ کانوں میں چاندی کے بندے انگور کے خوشوں کی طرح لس لس کرتے ہوئے لرز رہے ہیں اور ان بندوں میں اس کے بالوں کی ایک لٹ بے طرح الجھی ہوئی ہے۔ مولے گنڈاسے والے کا جی چاہا کہ وہ بڑی نرمی سے اس لٹ کو چھڑا کر راجو کے کانوں کے پیچھے جما دے یا چھڑا کر یونہی چھوڑ دے یا اسے اپنی ہتھیلی پر پھیلا کر ایک ایک بال کو گننے لگے یا
ماں ترازو لے کر آئی تو راجو بولی۔ "پہلے دیکھ لے ماسی، رگڑ کے سونگھ لے۔ آج صبح ہی کو تازہ تازہ مکھن گرم کیا تھا۔ پر سونگھ لے پہلے!"
"نہ بیٹی میں تو نہ سونگھوں گی۔" ماں نے کہا "میرا تو روزہ مکروہ ہوتا ہے!۔"
"لو" مولا نے لٹھ کی ایک طرف گرا دیا۔ پانچوں آہستہ آہستہ ا س کی طرف بڑھنے لگے۔ ہجوم جیسے دیوار سے چمٹ رہ گیا۔ بچے بہت پیچھے ہٹ کر کمہاروں کے آوے پر چڑھ گئے تھے۔
"کیا بات ہے؟" مولا نے گلے سے پوچھا۔
گلا جواب اس کے پاس پہنچ گیا تھا بولا۔
"تم نے چوھدری مظفر کا مال روکا تھا!"
"ہاں" مولا نے بڑے اطمینان سے کہا۔"پھر؟"
گلے نے کنکھیوں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور گلا صاف کرتے ہوئے بولا۔ چوھدری نے تمہیں اس کا انعام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ انعام ان سارے گاؤں والوں کے سامنے تمہارے حوالے کر دیں۔" "انعام!" مولا چونکا۔ "آخر بات کیا ہے؟"
گلے نے تڑاخ سے ایک چانٹا مولا کے منہ پر مارا اور پھر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔ "یہ بات ہے۔"
تڑپ کر مولا نے لٹھ اٹھائی، ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں گنڈاسا شعلے کی طرح چمکا، پانچوں نووارد غیر انسانی تیزی سے واپس بھاگے، مگر گلا لاری کے پرلی طرف کنکروں پر پھسل کر گر گیا۔ لپکتا ہوا مولا رک گیا، اٹھا ہوا گنڈاسا جھکا اور جس زاویے پر جھکا تھا وہیں جھکا رہ گیادم بخود ہجوم دیوار سے اچٹ اچٹ کر آگے آ رہا تھا۔ بچے آوے کی راکھ اڑاتے ہوئے اتر آئے، نورا دکان میں سے باہر آگیا۔
گلے نے اپنی انگلیوں اور پنجوں کو زمین میں یوں گاڑ رکھا تھا۔ جیسے دھرتی کے سینہ میں اتر جانا چاہتا ہے اور پھر مولا، جو معلوم ہوتا تھا کچھ دیر کے لئے سکتے میں آگیا ہے، ایک قدم آگے بڑھا، لٹھ کو دور دکان کے سامنے اپنے کھٹولے کی طرف پھینک دیا اور گلے کو بازو سے پکڑ کر بڑی نرمی سے اٹھاتے ہوئے بولاچوھدری کو میرا سلام دینا اور کہنا کہ انعام مل گیا ہے، رسید میں خود پہنچانے آؤ ں گا۔"
اس نے ہولے ہولے گلے کے کپڑے جھاڑے، اس کے ٹوٹے ہوئے طرے کو سیدھا کیا اور بولا۔ "رسید تم ہی کو دے دیتا پر تمہیں تو دولہا بننا ہے ابھی اس لئے جاؤ، اپنا کام کرو"
گلا سر جھکائے ہولے ہولے چلتا گلی میں مڑ گیامولا آہستہ آہستہ کھاٹ کی طرف بڑھا، جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے لوگوں کے قدم پیچھے ہٹ رہے تھے اور جب اس نے کھاٹ پر بیٹھنا چاہا تو کمہاروں کے آوے کی طرف سے اس کی ماں چیختی چلاتی بھاگتی ہوئی آئی اور مولا کے پاس آ کر نہایت وحشت سے بولنے لگی۔"تجھے گلے نے تھپڑ مارا اور تو پی گیا چپکے سے! ارے تو تو میرا حلالی بیٹا تھا۔ تیرا گنڈاسا کیوں نہ اٹھا؟ تو نے" وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آواز میں جیسے بہت دور سے بولی۔ "تو تو رو رہا ہے مولے؟"
مولے گنڈاسے والے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا ایک بازو آنکھوں پر رگڑا اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہولے بولا "تو کیا اب روؤں بھی نہیں!۔"
Afsana, Gandasa by Ahmed Nadeen Qasmi

Urdu Column , khalid Masood



Urdu Column , khalid Masood

Urdu Column , Ayaz ameer

Urdu Column , Ayyaz ameer

Wednesday, October 15, 2014

Urdu Column, Abdul Qadar Hasan

پاکستانی خبرداررہیں



Afsana, Eidgha by Munshi Pareem chnd

عید گاہ
(منشی پریم چند)

رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچے کی طرح پر تبسم درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دُنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لئے ہوں گے، بچوں کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آ گئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سویّوں کے لئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں، اس کی انہیں کیا فکر؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں کے مہاجن چودھری قاسم علی کے گھر دوڑے جا رہے ہیں، ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دُنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا۔ سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا غریب خوب صورت بچہ ہے، جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے؟ کہتی کس سے؟ کون سننے والا تھا؟ دل پر جو گزرتی تھی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کے ابا جان بڑی دُور روپے کمانے گئے تھے اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لئے خاموش ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّا جان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں۔ دُنیا میں مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے، اس کی ایک نگاہِ معصوم اسے پامال کرنے کے لئے کافی ہے۔
حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، "تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟
مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہمین کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کُل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔
سمیع: سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے، چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آ کر انہیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔
اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنات آ کر انہیں روپے دے جاتے ہیں۔ آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔
نوری نے تصحیح کی، "یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔ رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا، ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔
حامد نے تعجب سے پوچھا، "یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتا نہیں؟ " نوری نے اس کی کوتاہ فہمی پر رحم کھا کر کہا، "ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو یہ خود ہیں لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔"
بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمعے نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اُڑتی تھی۔
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رُتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پُر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔
نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم نہیں ہیں۔
یہ دیکھو ہنڈولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے، اُونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔"
ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لئے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صَرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گیا ہے۔ حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔ سب لو گ چرخی سے اُترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورتبولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لئے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسند آیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دہانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے، کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لئے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دُھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کر وہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟
محسن کہتا ہے، "میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔"
نوری بولی، "اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا"
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لئے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں، ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک خنجری۔ اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگتا ہے، لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔
کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن نے کہا، "حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔"
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت کہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے دونے سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا۔
"اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاؤ۔ اللہ قسم۔"
حامد نے کہا، "رکھیے رکھیےکیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟"
سمیع بولا، "تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لو گے؟"
محمود بولا، "تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آؤ۔ یہ گلاب جامن لے لو"
حامد: "مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔"
محسن: لیکن جی میں کہہ رہے ہو گے کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟" محمود: اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر کھائے گا۔
حلوائیوں کی دُکانوں کے آگے کچھ دُکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لئے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دُکان پر ایک لمحہ کے لئے رک گیا۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر اماں کو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی، گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مُفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انہیں کوئی آنکھ اُٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اُتار لو، چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہاں ہے بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔ اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاؤ۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا، کھائیں مٹھائی آپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی، تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ میری زبان کیوں خراب ہو گی۔ اس نے پھر سوچا، اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹا اپنی ماں کے لئے دست پناہ لایا ہے، ہزاروں دُعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوں کو دکھائیں گی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دُعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دُعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو مزاج دکھاؤں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا اور کتابیں دے دوں گا، یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگیں۔ دست پناہ دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے۔ احمق تو ہیں ہی سب۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دُکاندار سے پوچھا، "یہ دست پناہ بیچو گے؟"
دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا، وہ تمہارے کام کا نہیں ہے۔
"بکاؤ ہے یا نہیں؟"
"بکاؤ ہے جی اور یہاں کیوں لاد کر لائے ہیں"
"تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟"
"چھ پیسے لگے لگا"
حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا، تین پیسے لو گے؟ اور آگے بڑھا کہ دُکاندار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دُکاندار نے گھرکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لئے۔ حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔ محسن نے ہنستے ہوئے کہا، "یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اسے کیا کرو گے؟"
حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا، "ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی"
محمود: "تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟"
حامد: "کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا" ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا، چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔"
سمیع متاثر ہو کر بدلا، "میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے"
حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا، "میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا۔ میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامد ہے بڑا ہوشیار۔ اب دو فریق ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف، حامد یکہ و تنہا دوسری طرف۔ سمیع غیر جانبدار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائے گا۔ مناظرہ شروع ہو گیا۔ آج حامد کی زبان بڑی صفائی سے چل رہی ہے۔ اتحادِ ثلاثہ اس کے جارحانہ عمل سے پریشان ہو رہا ہے۔ ثلاثہ کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ روئیں تن ہے صف شکن ہے اگر کہیں شیر کی آواز کان میں آ جائے تو میاں بہشتی کے اوسان خطا ہو جائیں۔ میاں سپاہی مٹکی بندوق چھوڑ کر بھاگیں۔ وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے۔ چغے میں، منہ میں چھپا کر لیٹ جائیں۔ مگر بہادر یہ رُستمِ ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہو جائے گا اور اس کی آنکھیں نکال لے گا۔
محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا، "اچھا تمہارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔ حامد نے دست پناہ کو سیدھا کر کے کہا کہ یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔
محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے کمک پہنچائی، "بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولئے جناب"
حامد کے پاس اس وار کا دفیعہ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاً اس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا، "اسے پکڑنے کون آئے گا؟"
محمود نے کہا، "یہ سپاہی بندوق والا"
حامد نے منھ چڑا کر کہا یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی، پکڑیں گے کیا بے چارے"
محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا، "تمہارے دست پناہ کا منھ روز آگ میں جلا کر ے گا۔" حامد کے پاس جواب تیار تھا، "آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمہارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رُستم ہی کر سکتا ہے۔"
نوری نے انتہائی جدت سے کام لیا، "تمہارا دست پناہ باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگا کر بیٹھے گا۔ اس جملہ نے مُردوں میں بھی جان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا۔"بے شک بڑے معرکے کی بات کہی، دست پناہ باورچی خانہ میں پڑا رہے گا"
حامد نے دھاندلی کی، میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔
اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا، گو ثلاثہ کے پاس ابھی گیند سیٹی اور بت ریزرو تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے۔ دست پناہ رستمِ ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں۔"
فاتح کو مفتوحوں سے خوشامد کا مزاج ملتا ہے۔ وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کئے اور کوئی کام کی چیز نہ لا سکے۔ حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جما لیا۔ کھلونوں کا کیا اعتبار۔ دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ حامد کا دست پناہ تو فاتح رہے گا۔ ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔
محسن نے کہا، "ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تو دیکھیں۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لو حامد! ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ فیاض طبع فاتح ہے۔ دست پناہ باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔ مگر ان کھلونوں کے لئے انہیں دُعا کون دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہو گا جتنا اماں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرزِ عمل پر مطلق پچھتاوا نہیں ہے۔ پھر اب دست پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔ اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اور سمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لئے، حامد کو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔
گیارہ بجے سارے گاؤں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی جو اچھلی تو میاں بہشتی نیچے آ رہے اور عالمِ جاودانی کو سدھارے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کئے۔ میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یا طاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہو گا۔ دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں۔ ان پر چیڑ کا ایک پرانا پڑا رکھا گیا۔ پڑے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا گیا جو منزلۂ قالین کا تھا۔ وکیل صاحب عالم بالا پہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگی۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دُنیائے فانی میں آ رہے۔ اور ان کی مجسمۂ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی تاکہ بے کار نہ جا کر زاغ و زغن کے کام آ جائے۔
اب رہے میاں محمود کے سپاہی۔ وہ محترم اور ذی رُعب ہستی ہے اپنے پیروں چلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہا تھا اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے "تھونے والے داگتے لہو" پکارتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لئے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ مضروب ہو گئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں، محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیں اور یہ ٹوٹی ٹانگ آناً فاناً میں جوڑ د ے گا۔ صرف گولر کا دودھ چاہئے۔ گولر کا دودھ آتا ہے۔ ٹانگ جوڑی جاتی ہے لیکن جوں ہی کھڑا ہوتا ہے، ٹانگ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ عملِ جراحی ناکام ہو جاتا ہے۔ تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ گوشہ میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گا۔
اب میاں حامد کا قصہ سنئے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اُٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔
"یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹا؟"
"میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔"
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ "یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔"
حامد نے خطاوارانہ انداز سے کہا، "تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟"
امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان ہوتی ہے اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ دردِ التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اُف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جانسوزی ہے۔ غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لئے کتنا ضبط کیا۔ جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کا دل کتنا لہراتا ہو گا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دُنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔
اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھیا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دُعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔
********