Articles

   
 ء2007 خودکش دھماکوں کا سال  


تحریر : ساجد حسین

ء2007 کا سال ان گنت تلخ یادیںچھوڑ کر اختتام پذیر ہوگیاملک کے مختلف حصوں میں فوجی آپریشن ہوتے رہے جن میں ہزاروں افراد جاں بحق و زخمی ہوئے پاکستانی عوام نے سارا سال خودکش دھماکوں کی بہار بھی پہلی بار دیکھی۔ 2007ءمیں 63خودکش دھماکے ہوئے جن میںایک ہزار کے لگ بھگ افراد مارے گئے جبکہ 1500سے زائدزخمی ہوئے۔ خودکش دھماکوں میں مرنے والے افراد میں سے ایک بڑی تعداد فوجی نیم فوجی اداروں کے افراد اور پولیس اہلکاروں کی ہے بلاشبہ 2007ءکو خودکش دھماکوں کا سال کہا جا سکتا ہے ۔آج ہم 2007ءمیں ہونے والے خود کش دھماکوں کا جائزہ لیتے ہیں لیکن اس سے پہلے پاکستان میں ہونے والے خودکش دھماکوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں خودکش دھماکوں کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے ملکی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ انیس نومبر1995ءکو اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا۔ مصری حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان میں دوسرا خودکش حملہ آٹھ مئی 2002ءکو کراچی کے شیرٹن ہوٹل کے باہر ہوا جس میں فرانسیسی انجینئرز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں گیارہ فرانسیسیوں سمیت چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں یہ پہلا خودکش حملہ تھا جس میں پاکستانی خودکش حملہ آور ملوث تھا۔ 
تیسرا خودکش حملہ چودہ جون 2002ءکو کراچی ہی میں ہوا۔ اس حملے میں بارود سے بھرا ٹرک امریکی سفارتخانے کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا گیاجس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے۔ 
پچیس دسمبر 2003ءکوصدرپرویز مشرف کے قافلے پر ہونے والے ایک خودکش حملے میں چودہ افراد مارے گئے اور چالیس زخمی ہوئے لیکن جنرل مشرف بچ گئے۔ چودہ دسمبر کو بھی اسی طرح کے ایک حملے میں جنرل مشرف محفوظ رہے۔
 2004ءمیں پانچ خودکش دھماکے ہوئے جن میں ستاون افراد مارے گئے۔ ان میں سے چار حملے فرقہ وارانہ تھے جبکہ ایک حملہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر اٹک میں ہوا۔ شوکت عزیز پر حملہ تیس جولائی کو ہوا جس میں آٹھ افراد مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔
اکتیس مئی 2004ءکراچی میں محمد علی جناح روڈ پر واقع ایک مسجد پر ہونے والے حملے میں بیس افراد مارے گئے اور چالیس زخمی ہوئے۔
اٹھائیس اکتوبر 2004ءکواسلام آباد میں میریٹ ہوٹل میں ہونے والے ایک دھماکے میں دو غیرملکیوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے۔
سات اکتوبر2004ءکو ملتان میںمذہبی رہنما مولانا اعظم طارق کی یاد میں منعقدہ ایک جلسہ سے واپس جانے والے افراد پر ایک کار بم سے حملہ کیا گیا جس میں چالیس افراد جاں بحق ہوئے۔
یکم اکتوبر 2004ءکو سیالکوٹ میں جمعہ کے روز ایک امام بارگاہ پر ہونے والے خودکش حملے میں پچیس افراد مارے گئے۔
2005ءمیں دو خودکش حملے ہوئے۔ یہ دونوں حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں 42 افراد جاں بحق ہوئے۔ پہلا حملہ 29 مارچ 2005 ءکو بلوچستان کے شہر گندھاوا کے قریب ایک دیہات فتح پور میں عرس کی تقریبات کے دوران کیا گیا جس میں چوبیس افراد جاں بحق اور ستر سے زائد زخمی ہوئے۔دوسرا حملہ ستائیس مئی کو اسلام آباد میں امام بری کے مزار پر ہوا جس میں اٹھارہ افراد جاں بحق اور80 سے زائد زخمی ہوئے۔
2006ءمیںچھ حملوں میں تقریباً ایک سو چالیس افراد جاں بحق ہوئے۔ ان حملوں میں صرف دو حملے فرقہ وارانہ تھے ۔ایک حملہ امریکی سفارتخانے کے سامنے ہوا جب کہ باقی تین سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف ہوئے تھے۔ 
2007ءکا آغاز ہی خودکش حملوں کے نہ تھمنے والے سلسلے سے ہوا۔جن کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔
 سنہ2007 کے پہلے ہی ماہ میں چار خود کش حملے ہوئے۔ پہلا خود کش حملہ بائیس جنوری کو شمالی وزیرستان کے شہر میر علی کے قریب فوجی گاڑیوں کے قافلے پر ہوا جس میں حملہ آور، چار فوجی اور ایک عورت جاں بحق جبکہ تیئس زخمی ہوئے۔
اس حملے کے چار دن بعد 26 جنوری کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل کے باہر خودکش حملے میں حملہ آور اور سکیورٹی گارڈ جاں بحق جبکہ 5 لوگ زخمی ہوئے۔ایک دن بعد ہی یعنی27 جنوری کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ایک مسجد کے قریب خود کش حملہ ہوا جس میں ڈی آئی جی پولیس پشاور، ایک ڈی ایس پی اور دو یونین کونسل ناظمین سمیت 13 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔
چوتھا خودکش حملہ29 جنوری کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس چیک پوسٹ کے قریب ہوا جس میں 2 پولیس اہلکار اور حملہ آور مارا گیا۔
فروری میں خود کش حملوں کے تین واقعات پیش آئے۔ تین فروری کو ضلع ٹانک کے علاقے بارہ خیل میں فوجی گاڑیوں کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا جس میں حملہ آور اور دو فوجی مارے گئے۔ تین دن بعد 6 فروری کو اسلام آباد ائرپورٹ کے احاطے میں ایک اور خود کش حملہ ہوا جس میں صرف حملہ آور مارا گیا جبکہ 3 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔
17 فروری کو کوئٹہ میں ایک بڑا خود کش حملہ سینئر سول جج کی عدالت میں ہوا جس میں سول جج اور چھ وکلاءسمیت سترہ افراد جاں بحق اور پینتیس زخمی ہوئے۔ 
29 مارچ کو کھاریاں میں فوجی چھاو ¿نی کے قریب فوجی تربیتی مرکز میں ہونے والے خودکش حملے میں دو فوجی اور حملہ آور مارا گیاجبکہ سات افراد زخمی ہوئے۔
اپریل کی 28 تاریخ کوسابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاو ¿ کے حلقہ انتخاب چارسدہ میں ان کے جلسے میں خودکش حملہ ہوا جس میں کم سے کم 31 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ آفتاب شیرپاو ¿ اور ان کے بیٹے سکندر شیرپاو ¿ سمیت درجنوں زخمی ہوئے۔ 
مئی میں دو خودکش حملے ہوئے مئی کی 15 تاریخ کو پشاور کے مرحبا ہوٹل میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں 25افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ 
28 مئی کو بنوں میں خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی فرنٹئر کانسٹیبلری کی ایک گاڑی سے ٹکرادی جس سے حملہ آور اور دو اہلکار جاں بحق ہوئے۔
جولائی خودکش حملوں کے حوالے سے مہلک ترین ثابت ہوا جس میں تیرہ خودکش بم دھماکے ہوئے۔
4جولائی کو قبائلی علاقے میران شاہ سے بنوں آنے والے ایک فوجی قافلے کو مبینہ خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں چھ فوجیوں سمیت آٹھ افراد جاں بحق اور بارہ زخمی ہوئے۔ 
دو دن بعد یعنی چھ جولائی کو مالاکنڈ ایجنسی کے چکدرہ پل کے ساتھ ہونے والے خودکش حملے میں چار فوجیوں کو ہلاک جبکہ ایک کو زخمی کر دیا گیا۔
اس حملے کے چھ روز بعد یعنی 12جولائی کو ایک خودکش بمبار نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں قائم پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر پر حملہ کردیا تھا جس میں دو افراد جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔
بارہ جولائی کو ہی ضلع سوات کے صدر مقام مینگورہ میں گاڑی میں سوار دو مبینہ خودکش حملہ آوروں نے اس وقت خود کو دھماکے کے ساتھ اڑادیا جب فوجی قافلے کا پیچھا کرتے ہوئے پولیس نے ان کی گاڑی روکی اور تلاشی کے دوران گاڑی میں دھماکہ ہوا جس میں تین پولیس اہلکار اور دو حملہ آور مارے گئے۔
پندرہ جولائی کوضلع سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دو مختلف خودکش حملوں میں گیارہ فوجیوں سمیت چالیس افراد جاں بحق ہوئے۔ پہلا خودکش حملہ سوات کے علاقہ مٹہ میں پیش آیا تھا جس میں دو خودکش حملہ آوروں نے فوجی قافلے کو نشانہ بنایا نتیجے میں تیرہ افراد جاں بحق اور باون زخمی ہوئے جبکہ دوسرے واقعے میں ڈی آئی خان میں پولیس بھرتی مرکز پر ہونے والے حملے میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت ستائیس افرادجاں بحق اور چالیس زخمی ہوئے۔
دو دن بعد سترہ جولائی کو شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی کھجوری چیک پوسٹ پر خود کش حملے میں دو فوجی اور خود کش حملہ آور سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔
 اٹھارہ جولائی کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار میں ہونے والے وکلائ کنونشن کے پنڈال کے قریب خود کش حملے میں بیس سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ حملہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد سے ذرا پہلے ہوا تھا۔
انیس جولائی کو تین خود کش حملوں میں باون افراد جاں بحق ہوئے۔ ملک کے جنوبی شہر حب میں ایک حملے میں تیس افراد جا ںبحق ہوئے۔ ہنگو میں ایک کار بم حملے میں سات افراد اور کوہاٹ میں ایک مسجد پر حملے میں پندرہ نمازی مارے گئے۔ 
بیس جولائی کو میرانشاہ میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی سے حملہ کیا جس میں ایک سکیورٹی اہلکار سمیت چار افراد مارے گئے۔
ستائیس جولائی کو اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ میں خود کش حملے میں سات پولیس اہلکاروں سمیت پندرہ افراد مارے گئے۔
اگست میں آٹھ خودکش حملے ہوئے جن میں سے پہلے حملے میںدو اگست کو سرگودھا میں پولیس کے تربیتی مرکز کوخودکش بمبار نے اڑانے کی کوشش کی لیکن پولیس افسر نے اسے روکا تو اس نے دھماکہ کر دیانتیجے میں ایک پولیس افسر اور خود کش حملہ آور مارا گیا۔
 تین اگست کو مینگورہ میں ضلع ناظم کے اہلخانہ کو نشانہ بنایا گیا حملہ آور مارا گیا تاہم ناظم کے والد اور دیگر رشتہ دار زخمی ہوئے۔
چار اگست کو صوبہ سرحد کے علاقے پارہ چنار میں خود کش حملہ آور نے اپنی گاڑی ٹیکسی سٹینڈ میں گھسادی جس کے نتیجے میں نو افراد جاں بحق اور 37 زخمی ہو ئے ۔ 
سترہ اگست کو ٹانک میں فوجی قافلے پر حملے میں حملہ آور جاں بحق اور پانچ فوجی زخمی ہوئے۔
بیس اگست کو ہنگو میں چیک پوسٹ پر خود کش حملہ آور نے بارود سے بھر گاڑی ٹکرادی جس میں چار سکیورٹی اہلکاروں سمیت پانچ افراد جا ں بحق ہوئے۔
چوبیس اگست کو شمالی وزیرستان کے شہر میر علی کے قریب اور قمر چیک پوسٹ پر دو علیحدہ علیحدہ خود کش حملوں میں پانچ اہلکاروں سمیت سات افراد مارے گئے۔
چھبیس اگست کو صوبہ سرحد کے ضلع شانگلہ میں بارود سے بھری گاڑی کو روکنے پر دھماکہ ہوا جس میں ایک پولیس افسر سمیت چار اہلکار اور بمبار مارے گئے۔
ستمبر میںچھ خودکش دھماکے ہوئے یکم ستمبر کوباجوڑ اور جنڈولہ کے مقامات پر دوخودکش حملوں میں تین سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت پانچ افراد مارے گئے۔
چار ستمبرکو راولپنڈی میں فوجی ہیڈ کوارٹر کے قریب دو الگ الگ واقعات میں خود کش حملہ آوروں نے حملہ کر کے پچیس افراد کو جاں بحق اور ستر کو زخمی کر دیا۔ 
گیارہ ستمبرکوڈیرہ اسماعیل خان کے خودکش حملے میں19 افراد جاں بحق اور بیس زخمی ہوئے۔ 
تیرہ ستمبرکو تربیلا غازی میں فوج کی ایک کینٹین میں خود کش حملے کے نتیجے میں 20 کمانڈو ز جاں بحق اور 46 زخمی ہوئے۔
اکتوبر کے مہینے میں 8 خودکش حملے کئے گئے جن میں پہلایکم اکتوبر کوبنوں میںدرانی آبشار چوک میںہوا جس میںچار پولیس اہلکاروں سمیت سولہ افراد جاں بحق جبکہ 32 زخمی ہوئے ۔
18 اکتوبر کو کراچی میں بے نظیر کی وطن واپسی پر استقبالی جلوس میں دو خود کش دھماکوں میں150 افراد مارے گئے جبکہ ساڑھے پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے۔مرنے والوں میں پولیس کے بیس اہلکار اور ایک نجی ٹی وی کا فوٹو گرافر بھی تھا۔چھ صحافی زخمی بھی ہوئے۔
25 اکتوبر کو مینگورہ سوات میں پولیس لائن کے قریب دو خودکش حملہ آوروں نے آلٹو کار ایف سی کمانڈوز کے ٹرک سے ٹکرا دی جس سے تیس اہلکار اور چار شہری جاںبحق جبکہ نو اہلکاروں سمیت اٹھائیس افراد شدید زخمی ہوئے ¾ پچیس دکانوں اور درجنوں گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔
اٹھائیس اکتوبر بروز اتوار سوات میں سنگوٹہ کے مقام پر سیکورٹی فورسز پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں درجنوں اہلکار جاںبحق اور انیس اہلکاروں سمیت پچپن افراد زخمی ہوئے۔
30 اکتوبر کو راولپنڈی میں صدارتی کیمپ آفس اور پاک فوج کے اعلیٰ ترین افسران کی رہائش گاہوں کے قریب خودکش حملے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد جاں بحق جبکہ بارہ پولیس اہلکاروں سمیت اٹھائیس افراد شدید زخمی ہوئے۔
نومبر میں پانچ خودکش حملے ہوئے یکم نومبر کو سرگودھا فیصل آباد روڈ پر موٹر سائیکل سوار خودکش حملہ آور پی اے ایف افسران اور ملازمین کی بس سے ٹکرا گیا جس میں پانچ افسروں سمیت آٹھ افراد جاں بحق اور چالیس شدید زخمی ہوئے۔
نومبر کی نو تاریخ کو پشاور کے علاقے حیات آباد میں سابق وفاقی وزیر امیر مقام کے گھر پر خودکش حملہ ہوا جس میں تین سیکورٹی اہلکاروں سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے جبکہ سابق رکن سرحد اسمبلی پیر محمد خان سمیت دو افراد زخمی ہوئے۔
بائیس نومبرکو مینگورہ میں واقع سیدو شریف ائیر پورٹ کے قریب بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سیکورٹی فورسز نے ایک ٹرک کو روکنے کی کوشش کی تو اس میں موجود خودکش بمبار نے خود دھماکے سے اڑا دیا ۔ اس واقعے میں دو فوجی جوان جاں بحق اور کچھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
راولپنڈی میںچوبیس نومبر کو جی ایچ کیو اور حمزہ کیمپ (اوجڑی کیمپ) کے باہر دو خود کش بم دھماکوں کے نتیجے میں حساس ادارے کے اہلکاروں سمیت 38 افراد جاں بحق اور 35 سے زائد زخمی ہوئے۔
2007 ءکے آخری مہینے میں گیارہ خودکش دھماکے ہوئے ۔4 دسمبرکو پشاور چھاو ¿نی کے علاقے بابر روڈ پر قائم فوج کی چیک پوسٹ کے قریب ایک خودکش خاتون بمبار نے بم دھماکہ کیا جس میں خاتون بمبار کے علاوہ کوئی جانی نقصان نہیںہوا۔
مینگورہ میں9 دسمبر کو سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر تلاشی کے دوران خودکش حملے میں سات شہریوں دو ایف سی ¾تین پولیس اہلکاروں اور حملہ آور سمیت تیرہ افراد مارے گئے حملے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔
10دسمبر کو ضلع اٹک کے شہر کامرہ میں پیر کی صبح ایک سفید گاڑی میں سوار خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی پاکستان فضائیہ کی بچوں کو سکول لیجانے والی ایک گاڑی سے ٹکرا دی۔ گاڑی میں انیس طلبہ و طالبات سوار تھے حملے میں حملہ آور اور فوجی گاڑی کا ڈرائیور جاں بحق جبکہ پانچ بچوں سمیت سات افراد زخمی ہوئے ۔
13 دسمبر کو کوئٹہ چھاونی میں فوجی چوکیوں کے قریب دو علیحدہ علیحدہ خود کش حملوں میں کم سے کم تین فوجیوں سمیت بارہ افراد جاں بحق اور 23زخمی ہوئے ۔
پندرہ دسمبر کو ایمرجنسی ہٹانے سے چند گھنٹے قبل ایک سائیکل سوار خود کش بمبار نے نوشہرہ میں قائم فوجی چھاو ¿نی میں واقع آرمڈ سروسز سنٹر کے گیٹ کے سامنے خود کو دھماکے کے ساتھ اڑایا، جس کے نتیجے میں حملہ آور، دو فوجی اور تین عام شہری جاں بحق جبکہ دس افراد زخمی ہوئے۔ 
دسمبر کی سترہ تاریخ کو کوہاٹ میں فوجی چھاو ¿نی میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں بارہ فوجی جاں بحق جبکہ کئی زخمی ہوئے ۔خود کش حملہ آور نے فوجی جوانوں کو کوہاٹ کے آرمی پبلک سکول کے قریب نشانہ بنایا۔
21 دسمبر کو چارسدہ کے گاﺅں شیرپاﺅ کی جامع مسجد میں نماز عید کے دوران خودکش حملے میں 63 افرادجا ں بحق اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔حملے میں آفتاب شیرپاﺅ کا ایک بیٹا اور بھتیجا بھی زخمی ہوا جبکہ وہ خود محفوظ رہے۔
23دسمبر کومینگورہ میں خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی سیکورٹی فورسز کے قافلے سے ٹکرا دی جس میں چار اہلکاراور پانچ عام افراد جاںبحق جبکہ 23 زخمی ہوئے۔
27 دسمبرکو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پی پی پی کے جلسہ عام میں خودکش حملے میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سمیت تیس افراد جاں بحق جبکہ ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
2007 کا آخری خود کش دھماکہ تیس دسمبر کوبہاولنگر میں ہوا جب وفاقی وزیر اعجازالحق کے گھر سے تقریباً اڑھائی سو میٹر کے فاصلے پر خود کش حملہ آوروں کا موٹر سائیکل پھسل کر گر گیا جس سے ان کے پاس موجود دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا اور دونوں حملہ آور جاں بحق ہوگئے۔
گزشتہ سال ہونے والے خود کش دھماکوں کااگرموزانہ کیا جائے تو 39 حملے فوج اور پولیس پر ہوئے جن میں 29 حملے فوجی اور نیم فوجی اداروں پر ہوئے جبکہ دس حملوں میں پولیس کو ٹارکٹ کیا گیا اسی چھ حملے سیاسی شخصیات کیخلاف ہوئے جن میں دو حملے سابق وفاقی وزیر آفتاب شیرپاﺅ پر ایک سابق وفاقی وزیر امیر مقام پر ایک سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق کے گھر کے پاس ہوا جبکہ ایک حملے میں ضلع ناظم اور ایک میں پولٹیکل ایجنٹ کونشانہ بنایاگیا۔دو حملے ہوٹلوں میں ہوئے اسی طرح دو میں مساجد کو نشانہ بنایا گیااس دوران ملک میں ایمرجنسی بھی لگی جو بیالیس دن بعد اٹھا لی گئی ایمرجنسی کے دوران بھی نو خودکش حملے ہوئے جن میں سے سات میں پولیس اور فوج کو نشانہ بنا یا گیا۔
حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ پرائی لڑائی کو ہم نے اپنے گھر لا کر عوام اور ملک کو کیا دیا ہے۔ اور اپنے ہی عوام پر فوج کشی کر کے ہم نے دنیا کو کیا پیغام دیاحکمرانوںکو اب اپنی کمیوں کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے عوام کو پرامن ماحول اور فراہم کرنا ہوگا۔گزشتہ سال عوام نے بہت بڑے بڑے سانحات کا سامنا کیا۔2007 ءاپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ ختم اور نیا سال شروع ہو چکا ہے اللہ تعالی ٰسے دعا کہ2008ءکو پاکستان اور عوام کیلئے پرامن اور خوشیوں بھرا سال بنا دے۔
٭٭٭*************************************

 پختونخوا ....حقیقت کیا

تحریر: ساجد حسین


صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کے اقتدار میں آنے سے ایک بار پھر صوبے کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے اے این پی کے رہنما صوبے کا نام پختون خوا رکھنا چاہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ صوبے میں پختو (پشتو) بولنے والوں کی اکثریت ہے لہذا زیادہ اہل زبان یعنی پختونوں کی وجہ سے صوبے کا نام پختون خوا ہونا چاہئے ان کی اس دلیل کے مطابق تو صوبہ سرحد کے اندر بھی اٹھائیس صوبے ہونے چاہئیں کیونکہ صوبہ سرحد کے طول و عرض میں پشتو سمیت کل اٹھائیس زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ملک بھر میں پہلے پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی اور مہاجر کا نعرہ لگا کر عوام کو آپس میں لڑایا گیا اور اب صوبہ سرحد کا ایک متنازعہ نام رکھ کر عوام کو ایک دوسرے سے نبرد آزما کرنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں کے عوام کو پختون خوا کے نام پر کافی تحفظات ہیں صوبے میں دیگر زبانیں بولنے والوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ پختون خوا کا نام صرف پختو (پشتو) بولنے والوں کی نمائندگی کرتا جس سے دیگر اہل زبان میں احساس محرومی پیدا ہوگا۔ ہماری قیادت کو اس مسئلہ پر بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا ہوگا کہ ہمارے فیصلے آئندہ آنے والی نسلوں کے تصادم کا باعث تو نہیں ہوں گے۔ اٹھارہ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آنے والی جماعتوں کی قیادت ایک طرف تو مفاہمت مفاہمت کے نعرے لگا رہی ہے اور کل کے دشمن ایک میز پر آ بیٹھے ہیں پی پی پی ہو یا ن لیگ، اے این پی ہو یا ایم کیو ایم سب ہی ایک دوسرے کیلئے نیک جذبات کا اظہار کر رہے ہیں ساتھ چلنے کے وعدے کئے جا رہے ہیں مستقبل کی غلطیوں کو نہ دہرانے کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں وفاق سمیت چاروں صوبوں میں ایک دوسرے کو شامل اقتدار کیا جارہا ہے پھر صوبہ سرحد کے متنازعہ نام کے حوالے سے ایشو کیوں کھڑا کیا جارہا ہے ایک ایسے وقت میں جب سرحد میں پہلے ہی آگ و خون کا کھیل جاری ہے اس طرح کے متنازعہ معاملات کو ابھارنا کونسی دانشمندی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے عوام کو بڑے سہانے سپنے دکھاتے ہیں، بلند و بانگ دعوے اور لمبے چوڑے وعدے کئے جاتے ہیں عوام کو ترقی اور خوشحالی کی نویدیں سنائی جاتی ہیں مگر جیتنے کے بعد وہ سب کچھ بھول کر اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے سرگرداں ہو جاتے ہیں پھر انہیں کچھ ایسے ایشوز چاہئے ہوتے ہیں جنہیں ابھار کر وہ (حکمران) عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا سکیں اور عوام کو پھر سے آپس میں دست و گریباں کر سکیں اے این پی نے بھی انتخابات سے پہلے عوام سے کچھ زیادہ ہی وعدے کر دیئے تھے۔ اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی نے انتخابات سے قبل پارٹی منشور کا اعلان کرتے ہوئے داخلی امور، سیاسی و قانونی اور انتظامی معاملات، جمہوریت اور قانون کی بالادستی، سماجی اور اقتصادی امور، روزگار، صنعتی ترقی، شہری ترقی، تعلیم، صحت ، ماحولیات علاقائی تجارتی پن بجلی کی پیداوار، امور خارجہ، قبائلی علاقہ جات اور ترقیاتی اصلاحات پر بہت زور دیا تھا لیکن اب پارٹی رہنما ان ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ایک بار پھر سے مردہ ایشو کو جگانے کی کوششیں کر رہے ہیں جن میں صوبے کے نام پختون خوا رکھنا اور کالا باغ ڈیم کا معاملا ابھارا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ صوبے کا نام تبدیل کرنے سے عوام کو امن مل جائے گا، بھوکوں اور ننگوں کو روٹی اور کپڑا میسر ہو جائے گا بے گھروں کو چھت نصیب ہو جائے گی، بے روزگاروں کو روزگار مل جائے گا انصاف کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے والوں کو انصاف مل جائے گا۔
عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں آٹا دالیں، سبزیاں اور پھل غریب عوام کی قوت خرید سے نکلتے جا رہے ہیں بھوک کی وجہ سے لوگ بچوں سمیت خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے صوبائی حکومت کو صوبے کے اندر سکولوں اور ہپستالوں کی حالت کو بہتر بنانے پر اپنی توانائیاں خرچ کرنا ہوں گی، سڑکوں اور نہروں کے نظام کو فعال کرنا ہوگا، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانیے کو بتدریج کم کرنا اور بالآخر اس کے خاتمہ کی طرف توجہ دینا ہوگی صوبے کے اندر بڑھتے ہوئے منشیات کے استعمال کو روکنا اور سمگلنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو روکنا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال پر لانا ہوگا پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں کے مقابلے میں کئی گنا زائد بڑھے ہوئے کرایوں کو کم کرنا ہوگا۔

تاریخ اشاعت 2 اپریل2008
***********************************************



شہر قائد میں ایک اور خون کی ہولی


تحریر:ساجدحسین


روشنیوں کا شہر کراچی ایک بار پھر تاریکیوں کی نذر، شہر پر خوف کے سائے چھا گئے، بارہ زندگیوں کے چراغ گل کر دیئے گئے جن میں سے چھ کو زندہ جلا دیا گیا اس آٹھ سالہ بچے کا کیا قصور تھا جسے اپنے گھر کی گیلری میں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ دو افراد کے ساتھ ہونے والے واقعات کو بہانہ بنا کر آگ و خون کا یہ کھیل کیوں کھیلا گیا، اس کے پس پردہ کیا مقاصد تھے اور کن قوتوں کے ایما پر یہ سب کچھ کیا گیا۔ ان سوالات کے جوابات حکومت وقت نے عوام کے دینے ہوں گے۔ مانا کہ ارباب غلام رحیم اور ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ زیادتی ہوئی ان پر تشدد ہوا انہیں تھپڑ مارے گئے اور جوتیاں برسائی گئیں لیکن یہ کونسا احتجاج ہے ان دونوں حضرات کو اتنے تھپڑ اور جوتیاں نہیں پڑیں جتنی زندگیاں کراچی میں ختم کر دی گئیں اتنی خراشیں ان کے جسموں پر نہیں آئیں جتنے افراد کو زخمی کردیا گیا۔ آخر یہ سب کیا ہے ایسے واقعات کو آئندہ کون روکے گا؟ جو بچے یتیم ہوگئے انہیں باپ کی شفقت کون دے گا؟ جو عورتیں بیوہ ہوگئیں اور جن ماﺅں کے بیٹے چھین لئے گئے ان کے دکھوں کا مداوا کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟ کراچی میں ارباب غلام رحیم اور پھر لاہور میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے عوام کی اکثریت مکافات عمل قرار دے رہی ہے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ روشن خیال حکمرانوں کے آٹھ سالہ دور حکومت میں سیاسی رہنماﺅں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی، وکلاءاور صحافیوں پر کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے گئے۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں اور کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وکلاءتحریک کے دوران چیف جسٹس افتخار چوہدری اور وکلاءرہنماﺅں سمیت دیگر کو زدوکوب کیا گیا مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں تک کو نہیں بخشا گیا ان کے سروں پر بھی ڈنڈنے برسائے گئے۔ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کیا ان لوگوں کے انسانی حقوق ارباب،اور نیازی جیسے نہ تھے کیا یہ سب معزز اور پرامن شہری نہ تھے؟
گزشتہ برس بارہ مئی کو بھی کراچی میں پچاس کے لگ بھگ افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا درجنوں کو زخمی کیا گیا۔ اس کے بعد ستائیس دسمبر کو ہونے والے سانحہ لیاقت باغ کے بعد بھی سندھ اور بالخصوص کراچی میں آگ و خون کا کھیل کھیلا گیا۔ کوئی بھی واقعہ ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کے،رہنما ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگ جاتے ہیں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی جاتی ہے شہریوں کو ایک دوسرے سے مزید الجھانے کا سامان کیا جاتا ہے۔ پھر یخ بستہ کمروں میں بیٹھ کر سڑکوں پر عوام کے گرتے ہوئے خون کے نظارے کئے جاتے ہیں اس پر مگرمچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں ہر لیڈر مرنے والے کو اپنا سیاسی کارکن ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اوراس کے خون کا بدلہ لینے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ چند ہی دنوں یا ہفتوں بعد اس واقعہ کو بھول کر پھر کوئی نیا ایشو تلاش کر لیا جاتا ہے تاکہ خود کو عوام کا ہمدرد اور غم خوار ثابت کیا جا سکے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
نو اپریل کے واقعات کے حوالے سے اگر سیاسی رہنماﺅں کے بیانات پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یوں لگتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا لیڈر دوسرے کو اس میں ملوث کرنے کی سعی کر رہا ہے اور اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر رہا ہے ۔ کوئی ان واقعات کی روک تھام کی بات نہیں کرتا کہ ان کا تدارک کیسے کیا جائے۔ ق لیگ ہو یا ن لیگ، پی پی پی ہو یا ایم کیو ایم،یا پھر جماعت اسلامی ہر پارٹی دوسری پارٹی کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار،دیکر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں جتی دکھائی دیتی ہے۔ صدر پرویز مشرف کی طرف نو اپریل کے واقعات کوشرافگن پر تشدد کا ردعمل قرار دیا جانا بھی اپنے اندر کئی سوالات رکھتا ہے۔جس کی بنا وکلاءتحریک کے رہنما واقعات کا الزام ایوان صدر پر لگا رہے ہیں اور ایوان صدر سے جواباً وکلاءپر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ہر کوئی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے۔اگر کسی بھی جماعت کے کارکنوں نے یہ کارروائیاں نہیں کی ہیں تو پھر یہ سب کچھ کس نے کیا ہے یہ کون لوگ تھے اور ان کا مقصد کیا تھا۔ حکومت پنجاب اور سندھ کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان واقعات میں ملوث افراد یا گروہوں کو بے نقاب کرے اورحقائق کو منظر عام پر لایا جائے،کہ یہ کن کے کارندے تھے ورنہ عوام یہی سمجھیں گے کہ پہلے کی طرح یہ حکومت بھی ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے اگر حکومت ان واقعات کی غیرجانبدارانہ انکوائری کروا کر ملزمان کو قرار واقعی سزا نہیں دلاتی تو اس طرح کے واقعات آئندہ بھی ہوتے رہیں گے جو حکومت کی بدنامی کا باعث بنتے رہیں گے۔پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں رونما ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات کی آج تک غیر جانبدار اور ٹھوس بنیاوں پر انکوائری نہ ہونے کی وجہ سے،اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے بے خوف و خطر اپنا کام دکھا جاتے ہیں لہٰذا وقت کا تقاضا ہے بارہ مئی2007ءکے واقعات ہوں یا ستائیس دسمبر 2007ءکا جلاﺅ گھیراﺅ ہو یا پھر نو اپریل 2008ءکا سانحہ ہو سب کی غیر جانبدارانہ انکوائری کی جائے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے تاکہ آئندہ کیلئے ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
بعض تجزیہ نگار وںکے مطابق نو اپریل کے واقعات،سے ثابت ہو گیا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں ایم کیو ایم کے بغیر نہیں چل سکے گی اور اگر پی پی پی نے ایم کیو ایم کو شامل اقتدار نہ کیا تو سندھ میں امن قائم کرنا قائم علی شاہ کے بس کی بات نہیں ہوگی۔
یہاں ایک اور بات بھی بڑی ہی غور طلب ہے اگر صوبہ سرحد میں کوئی واقعہ ہو جائے،تو کہا جاتا ہے بیت اللہ مسعود اور طالبان ملوث ہیں، پنجاب میں کوئی کارروائی ہو جائے تو کہا جاتا ہے کالعدم تنظیموں یا القاعدہ کا کام ہو سکتا ہے، بلوچستان میں کوئی واقعہ ہو جائے تو قوم پرست جماعتوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اس کے برعکس سندھ یا کراچی میں جب بھی کوئی واقعہ ہوا، جلاﺅ گھیراﺅ،ہوا یا خون کی ہولی کھیلی گئی یہی کہاجاتا ہے کہ نامعلوم نقاب پوش افراد کارروائی کر کے فرار ہوگئے۔ اب ان نقاب پوشوں کے چہروں سے نقاب الٹنا ہوں گے انہیں بے نقاب کر کے عوام کو بتانا ہوگا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کس کیلئے کام کر رہے ہیں۔
عوام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک دوسرے کو معاف کرنے والے رہنماﺅں کے ٹوپی ڈراموںسے باخبر رہیں اور ان کا احتساب کرنے کیلئے میدان عمل میں نکلیں ورنہ یہ عوام کا خون بہا کر، ان کی املاک تباہ کر کے اور ان کی زندگی کی جمع پونجی چھین کر انہی کے پیسوں پر عیاشیاں کرتے رہیں گے۔


تاریخ اشاعت12اپریل2008
**********************************


مہنگائی کاایک اورسونامی

ساجد حسین


نگران حکومت نے جاتے جاتے عوام پر ایک اورپٹرول بم گرادیا۔ اس سے پہلے بھی یکم مارچ کو نگران حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرچکی تھی اس طرح20دنوں کے اندراندر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجموعی طورپر یہ دوسرا اضافہ ہے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں 76پیسے اورہائی اوکٹین کی قیمت میں صرف77پیسے فی لیٹر اضافہ ہوا جبکہ ہماری حکومت نے پٹرول کی قیمت 4 روپے 11 پیسے اورہائی اوکٹین کی قیمت میں 4 روپے 89 پیسے اضافہ کیا اس طرح یہ اضافہ عالمی منڈی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے یکم مارچ کوبھی نگرانوں نے قیمتوں میں بین الاقوامی مارکیٹ سے پانچ گنا زیادہ اضافہ کیا تھا۔ پندرہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چودہ فیصد کے قریب اضافہ ہوا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں ۔ گزشتہ ہفتے مہنگائی میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا۔ نگرانوں نے حکومت سنبھالتے ہی عوام کو آٹے کیلئے دربدر کردیا سوئی گیس اوربجلی کی شدید ترین لوڈشیڈنگ کرکے لوگوں کو سو سال پہلے کا دور یاد دلادیا کہ اس وقت کے شہری ان سہولیات کے بغیر کیسے زندگی بسر کرتے تھے۔گوکہ عالمی سطح پر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہیں مگر ہماری حکومت نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اورڈیلرز کونوازنے کیلئے ان کے بنیادی مارجن میں بھی اضافہ کیا ہے جس سے عوام پر زیادہ بوجھ پڑا۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مارجن میں آٹھ پیسے فی لیٹر اور ڈیلرز کے مارجن میں پانچ پیسے فی لیٹر اضافہ کیاگیا۔ ان لینڈ فریٹ چارجز50پیسے فی لیٹر بڑھائے گئے۔حکومت نے پٹرول پرلیوی کی شرح وصولی57پیسے فی لیٹر سے بڑھا کر 3 روپے 4پیسے اورہائی اوکٹین پرلیوی کی شرح 6 روپے26 پیسے سے بڑھا کر9 روپے14 پیسے فی لیٹر کردی ہے۔ اس طرح مارجن ان لینڈچارجز اورپٹرولیم لیوی میں اضافے کی وجہ سے فی لیٹر سیلزٹیکس میں 65پیسے تک کا اضافہ ہوا ہے۔
 عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 76پیسے اضافے سے43روپے85پیسے سے بڑھ کر44روپے 61روپے فی لیٹر، ہائی اوکٹین کی قیمت77پیسے اضافے کے ساتھ 44 روپے85 پیسے سے بڑھ کر45 روپے62 پیسے، کیروسین آئل (مٹی کا تیل) کی قیمت ایک روپیہ96 پیسے اضافے کے ساتھ28 روپے89 سے بڑھ کر30 روپے85 پیسے فی لیٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں2 روپے3 پیسے اضافہ ہوا ہے اس طرح ڈیزل کی قیمت27 روپے57 پیسے سے بڑھ کر29 روپے60 پیسے فی لیٹر ہوئی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں4 روپے11 پیسے ہائی اوکٹین کی قیمت میں 4روپے89 پیسے، ڈیزل کی قیمت میں2 روپے89 پیسے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 2 روپے71 پیسے فی لیٹر اضافہ کیاگیا جس سے پٹرول کی قیمت 62 روپے81 پیسے، ڈیزل38 روپے90 پیسے، ہائی اوکٹین74 روپے97 پیسے اورمٹی کے تیل کی قیمت41 روپے43 پیسے کو پہنچ گئی۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا) کے مطابق آئندہ پندرہ دنوں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین سے پانچ روپے مزید اضافے کا امکان ہے۔
 ہمارے ہاں آئے دن قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں تیل کی قیمتوں میں جون 2006 کے بعد14 جنوری 2008 کو معمولی اضافہ کیا گیا ہے گزشتہ ماہ بھارتی لوک سبھا میں طویل بحث کے بعد پٹرول کی قیمت میں دو روپے اور ڈیزل کی قیمت میں ایک روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے اس اضافے پر بھی وہاں کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے مگر ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نظر نہیں آتی کہ قیمتیں بڑھانے کیلئے پارلیمنٹ میں بحث ہوئی ہو۔
یکم مارچ کوپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے بعد ٹرانسپورٹروں نے لانگ روٹس پر کرائے بڑھادیئے تھے جبکہ بڑے شہروں میںبھی اندرون شہر سٹاپ ٹوسٹاپ کرائے میں دو روپے کااضافہ کردیاگیاتھا۔ اور اب مزید اضافہ کیاجارہا ہے۔ ریلوے نے بھی پانچ فیصد کرایہ بڑھانے کیلئے سمری تیار کرلی ہے ۔پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے بعد ضروریات زندگی کی کوئی ایسی چیز نہیں جس کی قیمتیں نہ بڑھی ہوںگزشتہ دوہفتوں کے دوران مرغی اورگوشت کی قیمتوں میں5 سے8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کوکنگ آئل اوربناسپتی گھی کی قیمتیں15سے20 فیصد بڑھی ہیں۔ مختلف اقسام کے چاول پانچ سے دس فیصد تک مہنگے ہوئے ہیں۔ چائے اورچینی کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں مختلف قسموں کی دالوں کی قیمتوں میں چار سے چھ فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ صابن اورصرف وغیرہ کی قیمتیں بھی2سے چار فیصد تک بڑھی ہیں۔ اسی طرح جلانے کی لکڑی، سرسوں کے تیل اورکپڑے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ سبزی کے نرخوں میں پندرہ فیصد اورپھلوں کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ آٹے کی قیمت بھی دو سے تین روپے فی کلو تک بڑھ چکی ہے۔تعمیراتی استعمال کی اشیاءسیمنٹ ¾ سریا وغیرہ کی قیمتوں میں بھی چار سے لیکر سات فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ادویات مزید مہنگی ہو چکی ہیںڈاکٹروں نے بھی اپنی فیسوں میں25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ بجلی اور سوئی گیس کے نرخ بڑھ چکے ہیں۔ ایسے میںبارہ کروڑ غریب عوام اور ان میںسے بھی ساڑھے چارکروڑ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ کہاں جائیں ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں پانچ کروڑ سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جن کی آمدن تیس روپے فی کس روزانہ سے بھی کم ہے جبکہ پاکستان کی سولہ کروڑ کی آباد ی میں ایک کروڑ افراد طبقہ امراءسے تعلق رکھتے ہیں اور یہی افراد اسمبلیوں سینٹ اور بیوروکریسی پر چھائے ہوئے ہیں انہیں غریب عوام کی مشکلات کا بھلا کیسے اندازہ ہو۔
یوں تونئی کوحکومت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں ملک میں جاری خودکش حملے بم دھماکے مختلف علاقوں میں جاری آپریشن بےروزگاری غربت صحت تعلیم لاقانونیت پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے مسائل شامل ہیں ججوں کی بحالی بھی ایک اہم مسئلہ ہے مگر موجودہ وقت میں عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی نظر آ رہا ہے افراط رز میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے عوام کی قوت خرید کمزور پڑ رہی ہے پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافے سے مہنگائی کاایک ایسا سونامی اٹھے گا جس کا تصورہی انتہائی خوفناک ہے۔لوگ دال روٹی کے چکرمیں دربدر ہو رہے ہیں۔ ان کو ایک ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو انہیںمہنگائی کے عفریت کے چنگل سے نکال سکے۔
عوام نے گزشتہ برسراقتدار سیاسی پارٹیوں کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے انہیں رد کیا اور نئی جماعتوںکو منتخب کر کے انہیں اپنے مسائل کے حل کیلئے ایک موقع دیا ۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ نواز اے این پی اور دیگر اتحادی پارٹیوں کا اب یہ فرض بنتا ہے کہ حکومت سازی کے معاملات حل کرنے کے بعد عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کیلئے لائحہ عمل اختیا ر کریں جیسا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مہنگائی نہ صرف کنٹرول کریں گے بلکہ اشیائے صرف کی قیمتوں کو کم کر کے موجودہ قیمتوں کے نصف تک لائیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کیلئے مختلف ٹیکسز میں کمی کے ساتھ ساتھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوںاور ڈیلرز کے مارجن میں کمی کی جائے۔ نوازشریف آصف زرداری اور اسفند یار ولی نے اعلان مری میں جس طرح ججوں کی بحالی کیلئے تیس دن کا ٹائم فریم دیا ہے اسی طرح انہیںمہنگائی کے خاتمہ کیلئے بھی واضح حکمت عملی کا اعلان اور ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔
تاریخ اشاعت19 مارچ2008
------------------------------------------------------------------------------



خودکش حملے.... تدارک کیسے؟


تحریر: ساجد حسین


 ایک اور خودکش دھماکہ....2008ءمیں ہونے والا یہ بارھواںخودکش حملہ ہے۔ چار مارچ کو لاہور کے نیول وار کالج میں یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے کئے گئے جن میں 7 افراد جاں بحق اور20 زخمی ہوئے اس سے دو روز قبل دو مارچ کو درہ آدم خیل میں منعقدہ ایک جرگے میں بائیس سالہ نوجوان نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے 43 افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہوگئے اس سے دو روز قبل یعنی 29فروری کومینگورہ میں پولیس افسر کی نماز جنازہ میں ہونے والے دھماکے میں45 افراد جاں بحق اور 65 سے زائد زخمی ہوئے ڈی ایس پی جاوید اقبال کی گاڑی جمعہ کی صبح ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر تباہ ہوگئی تھی جس میں وہ دو پولیس اہلکاروں کے ہمراہ جا ں بحق ہو گئے تھے شام کو ان کی نماز جنازہ میں خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں جاوید اقبال کا جواں سال بیٹا ¾مینگورہ کا ایک ایس ایچ او اور دیگر پولیس اہلکاروں سمیت45 افراد جاں بحق ہوئے۔
اس دھماکے سے چار دن قبل یعنی 25 فروری کوراولپنڈی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں آرمی کے سرجن جنرل لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ سمیت آٹھ افراد جاںبحق اور30 زخمی ہوئے تھے۔گزشتہ ماہ کی سترہ تاریخ کو کرم ایجنسی کے صدر مقام پارہ چنار میںپیپلزپارٹی کے انتخابی دفتر کے باہر خودکش حملہ آورنے باروسے بھری گاڑی فلائنگ کوچ سے ٹکرا دی جس سے47 افراد جاں بحق اور 110 زخمی ہوئے۔فروری ہی کی9 تاریخ کو چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے اجتماع میں ہونے والے خودکش دھماکے سے 27 افراد جاں بحق اور50 زخمی ہوئے۔4 فروری کو راولپنڈی میں این ایل سی کے دفتر کے قریب خودکش حملہ آور نے موٹر سائیکل آرمی کی میڈیکل کور کی کوسٹر سے ٹکرا دی جس 10افراد جاں بحق اور45 زخمی ہوئے۔یکم فروری کو شمالی وزیرستان میں میر علی کے مقام پرخودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی کھجوری چیک پوسٹ سے ٹکرا دی جس سے 7 افراد جاں بحق اور15 زخمی ہوگئے۔ اس طرح فروری میں کل چھ خودکش حملے ہوئے جبکہ جنوری2008 ءمیں تین حملے ہوئے۔ پہلا حملہ10جنوری کولاہور میں ہوا جس میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا حملے میں 22 پولیس اہلکاروں سمیت26 افراد جاں بحق اور50 سے زائد زخمی ہوئے۔ دوسرا حملہ 14 جنوری کو کراچی کے علاقے قائدآباد لانڈھی میں ہوا جس میں 12 افراد جاں بحق اور50 سے زائد زخمی ہوئے۔جنوری کا تیسرا حملہ17 تاریخ کو پشاور میں ایک امام بارگاہ میں ہوا جس میں10 افراد جاں بحق اور25 زخمی ہوئے۔
پاکستان میںخودکش حملوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں،پاکستان میں پہلا خودکش دھماکہ19 اکتوبر 1995 کوہوا پھرنائن الیون کے بعد پاکستان میں ہونے والے دھماکوں کی تعداد میں ہرسال اضافہ ہونے لگا۔2002ءمیں دو دھماکے ہوئے جن میں23افراد مارے گئے،2003ءمیں بھی دو دھماکے ہوئے جن میں14افراد مارے گئے ان دونوں دھماکوں کاٹارگٹ صدرپرویزمشرف تھے۔2004ءمیں 5 دھماکے ہوئے جن میں57افراد مارے گئے۔ ان میں چارفرقہ وارانہ تھے۔2005میں ہونے والے دوخودکش حملوں میں42افراد مارے گئے۔ 2006ءمیں چھ خودکش حملے ہوئے ان میں 140 افراد مارے گئے ان حملوں میں دوفرقہ وارانہ اورتین سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف تھے۔ 2007ءمیں 63خودکش حملے ہوئے جن میں ایک ہزار کے لگ بھگ افراد مارے گئے جبکہ1500سے زائد افراد زخمی ہوئے ان میں سینکڑوں مستقل معذورہوچکے ہیں۔ 2008ءمیں اب تک بارہ دھماکے ہوچکے ہیں جن میں241افراد مارے گئے جبکہ520زخمی ہوئے ہیں۔ 1995ئسے لیکر اب تک ملک بھر میں93حملے ہوچکے ہیں جن میں سے گیارہ حملے راولپنڈی میں ہوئے۔ راولپنڈی میں 2003ءکے دوران دوحملے ہوئے گزشتہ سال ہونے والے خودکش دھماکوں کی تعداد7ہے جبکہ امسال دو دھماکے ہوچکے ہیں۔پہلا حملہ4فروری کوہوا جس میں حملہ آور نے موٹرسائیکل فوج کی میڈیکل کور کی ایک کوسٹر سے ٹکرادی جس سے 10افراد ہلاک اور45زخمی ہوئے مرنے والوں میں ایک کرنل، دو صوبیدار میجر اور دو ایم ای ایس کے ملازمین بھی شامل تھے۔ دوسرا حملہ25فروری کوہوا جس میں فوج کے سرجن جنرل کی گاڑی کونشانہ بنایا گیا ۔حملے میں لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ سمیت آٹھ افراد مارے گئے جبکہ 30سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ راولپنڈی میں ہونے والے گیارہ حملوں میں سے 6حملے فوج اور ایک پولیس کے خلاف ہوا دو حملوں میں صدرمشرف کوٹارگٹ کیاگیا مگر وہ محفوظ رہے ایک حملے میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کونشانہ بنایاگیا جس میں وہ اور ان کی پارٹی کے 30کارکن مارے گئے جبکہ60سے زائد افراد زخمی ہوئے گزشتہ سال کے پہلے دو ماہ میں 7خودکش حملے ہوئے جن میں 53افراد ہلاک اور103 زخمی ہوئے جبکہ2008ءکے پہلے دو ماہ میں 9خودکش حملے ہو چکے ہیں جن میں192 افراد ہلاک اور440زخمی ہوئے ہیں۔
ہر خودکش حملے کے بعد جائے وقوعہ سے حملہ آور کا سر اور ٹانگیں تو مل جاتی ہیں مگر اس سے آگے بات نہیں بڑھتی حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے مذمتی بیان آ جاتے ہیں لیکن ان واقعات کے تدارک کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں وضع کی جاتی۔چیکنگ کے نام پر پولیس مختلف جگہوں پر ناکے لگا دیتی ہے اس طرح پولیس اہلکاروں کو عوام کی جیبیں ٹٹولنے کا ایک اور بہانہ مل جاتا ہے۔جبکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آج تک ان ناکوں پر کوئی بھی دہشت گرد یا خودکش حملہ آور نہیں پکڑا گیا۔یہاں یہ بات بھی باعث دلچسپی ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اور ایجنسیاں یہ اعلان توکر دیتی ہیں کہ فلاں شہر میں اتنے خودکش حملہ آور داخل ہوگئے ہیں مگر انہیں پکڑنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی۔آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔
اگر ان تمام واقعات پر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی کارروائیاں ہیں جنہیں پوری احتیاط کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھایا جا رہا ہے یہ کسی غیر منظم سیاسی یا مذہبی گروہ کا کام نہیں بلکہ اس میں ایسے ادارے ملوث دکھائی دیتے ہیں جن کے پاس مالی وسائل کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی بھی کوئی کمی نہیں اور ان کا جاسوسی کا نظام بھی اس قدر وسیع ہے کہ جب وہ کوئی کارروائی کرنے کیلئے اپنا ہدف چنتے ہیں تو پھر اسے ہر قیمت پر پورا کر کے ہی دم لیتے ہیں اور راہ میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو خاطر نہیں لاتے ان قوتوں کااصل مقصد پاکستان کی فوجی طاقت پر ضرب لگا کر اس کی دفاعی صلاحیت کو کمزور سے کمزور تر کرنے اور موررال گرانے کے سوا کچھ نہیں۔ اس قسم کے ناپاک اور ملک دشمن اقدامات کوئی بھی ملکی مذہبی یا سیاسی پارٹی یا دیگر لسانی گروہ نہیں سوچ سکتے۔
اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل طارق پرویز نے بھی گزشتہ برس یہ بات کہی تھی کہ 2007ءمیں ہونے والے خودکش حملوں کے زیادہ تر واقعات میں استعمال کی جانے والی جیکٹوں میں خصوصی آستینیں ایک ہمسایہ ملک کی تیارکردہ فیکٹری کی ہیں۔
ایک زمانہ تھا دنیا بھر میں ہمارے انٹیلی جنس ادارے اپنی مستعدی اور فعالیت کی وجہ سے مثال جانے جاتے تھے سوچنے کی بات ہے کہ آج ان کی کارکردگی میں کیوں فرق آیا عام تاثر یہی ہے کہ سیاسی معاملات اور بعض دیگر وجوہ کی بنا پر وہ اپنے اصل کام کی طرف زیادہ دھیان نہیں دے پا رہے اور ملک دشمن کھل کر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں ان اداروں کی ازسرنو تشکیل کرنے اور انہیںعصر جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ برس خودکش حملے میں بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو حکومت نے سیاسی رہنماﺅں کی سیکورٹی بڑھا دی اب آرمی کے سرجن جنرل کی شہادت کے بعد فوج کے اعلیٰ افسران کی سیکورٹی بڑھائی جا رہی ہے۔ خودکش حملوں کا شکار ہونے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ سیاسی رہنماﺅں اور فوجی افسران کی سیکورٹی نہ بڑھائی۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام کو سیکورٹی اورتحفظ کی ضرورت نہیں اگر ہے تو ان کو سیکورٹی کون فراہم کرے گا۔ ہمارے حکمرانوں اور تھینک ٹینک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان خودکش حملوں کے اسباب معلوم کریں اور پھر ان کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ہمیں بجائے شاخیں کاٹنے کے دہشت گردی کے درخت کو جڑوں سے اکھاڑنا ہوگا تب ہی جا کر ملک میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
 ملک بھر اور خاص کرحساس علاقوں میں بڑھتے ہوئے خودکش حملے روکنے کیلئے ہمہ جہت ٹھوس منصوبہ بندی کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سلامتی بقا اور استحکام کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی عائد ہوتی ہے ۔دہشت گردی کیخلاف سب کو مل کر کام کرنا گا اور اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوںگی تاکہ ملک دشمن عناصر کی سازشوں کوناکام بناتے ہوئے پاکستان کو ایک پرامن اور مستحکم ملک بنایا جائے سکے۔

تاریخ اشاعت 3 مارچ2008


**************************



 نیگروپونٹے کا دورہ اور عوامی خدشات
تحریر :ساجد حسین


پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں امریکی وزارت خارجہ کے دو اعلیٰ اہلکاروں کی آمد ¾ وفاقی دارالحکومت میں حکومتی عہدیداروں ¾ سیاسی قائدین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں ¾ پشاور میں گورنر سرحد سے ملاقات ¾ چھاﺅنی کا دورہ ¾شمالی علاقہ جات کے مشران و عمائدین کو تسلیاں ¾ دورہ کراچی میں گورنر سندھ ¾ ضلع ناظم کراچی اور ایم کیو ایم کے رہنماﺅں سے تبادلہ خیال ¾ پاکستانی وزارت خارجہ کے منع کرنے کے باوجود امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگروپونٹے اورجنوبی ایشیا کےلئے اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ باﺅچر کا آنا اور ملک کے اندر مختلف علاقوں کے طوفانی دورے کرنا چہ معنی دارد؟ 
جمہوریت کے بند گلی سے نکلتے ہی یعنی ایک ایسے وقت میں جب صرف وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا اور ابھی انہوں نے اپنی کابینہ کے ناموں کو بھی حتمی شکل نہیں دی تھی امریکا کے اعلیٰ عہدیداروں کے آنے سے عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات کلبلا رہے ہیں۔ کیا امریکی وفد صدر کو اکیلا ہوتے دیکھ کر نئی حکومت کو ان کا ساتھ دینے پر مجبور کرنے آیا؟ کیا گمشدہ افراد کے کیسز کو دبانے اور ججوں کی بحالی کے معاملات کو ٹھپ کرنے کا مشورہ دیا گیا؟ دورے کا مقصد دہشت گردی کے نام پر جاری آپریشنوں کو جاری رکھنے کیلئے دباﺅ بڑھانا تھا یا پھر پاکستانی سرحدوں کے اندر امریکی حملوں کو جائز قرار دلانا اور ان پر خاموش رہنے کی بات کی گئی۔ اسی نوعیت کے دیگر سوالات ہیں جن کے جوابات عوام اپنے رہنماﺅں سے جاننا چاہتے ہیں۔
نئے حکمراں اتحاد سے تو بظاہر امریکیوں کو کوئی خاص اور واضع یقین دہانی نہیں ملی تاہم صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے انہیں تسلی دی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک جامع پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ¾ سپیکر فہمیدہ مرزا ¾ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ¾ مسلم لیگ نون کے قائد میاں نوازشریف ¾ جمعیت علماءاسلام کے امیرمولانا فضل الرحمن ¾ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفند یار ولی سب ہی نے امریکی وفد پر واضح کیا ہے کہ آئندہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پالیسی پارلیمنٹ میں بنے گی اور قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن روک کر وہاں کے لوگوں سے مذاکرات کئے جائیں گے۔باقی معاملات پر ان رہنماﺅں کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔
نو از شریف نے نیگروپونٹے اور رچرڈ باو ¿چر سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ میں نے دونوں امریکی اہلکاروں پر واضح کر دیا ہے کہ ’نائن الیون کے بعد جو فیصلے فرد واحد کر رہا تھا وہ اب ممکن نہیں ہیں۔فرد واحد نے اس مسئلہ کو اپنے فائدے کےلئے استعمال کیا جس کے سبب اسے عوامی تائید حاصل نہیں ہوسکی، اب اس فرد واحد کو یہ اختیار نہیں رہا کہ وہ بنیادی فیصلے کرے، ہر مسئلہ پارلیمان کے سامنے آئے گا، اس کے اراکین اب ہر پہلو کا جائزہ لیں گے۔
نوازشریف کے ان الفاظ پر ذرا غور کیجئے کہتے ہیں ’جب امریکہ اپنے ملک کو دہشت گردی سے پاک رکھنا چاہتا ہے تو ہماری بھی خواہش ہے کہ پاکستان قتل گاہ نہ بنے، یہاں بم نہ گرائے جائیں اور یہ امن کا گہوارہ بنے۔‘نوازشریف نے بڑے خوبصورت انداز میں امریکا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ وہ ان باتوں پر کس حد تک عمل کرتے ہیں اور پارلیمنٹ سے ان معاملات کو کیسے حل کرایا جاتا ہے ۔ 
امریکا کے اصول بھی بڑے ہی نرالے ہیں کہیں وہ دھونس دھمکی سے اپنے کام نکالتا ہے تو کہیں لالچ دیکر۔ جہاں وہ سمجھتا ہے کہ فریق مخالف ڈرانے سے ڈر جائے گا تووہاں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیئے جانے کی دھمکی لگائی جاتی ہے اور جہاں سمجھتا ہے کہ فریق مخالف دھمکیوں سے نہیں دبے گاتو خود نرم پڑ جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال نیگروپونٹے اور رچرڈ باﺅچر کے حالیہ دورہ سے ملتی ہے۔دورہ سے قبل اس طرح کا تاثر دیا جارہاتھا کہ اگر پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ میں امریکا کا مزید ساتھ نہ دیا تو امداد روک دی جائے گی ۔دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے دیئے گئے دس ارب ڈالر کاحساب کتاب مانگنے کی باتیں بھی ہو رہی تھیںاور پاکستان پر مزید پابندیوں کا عندیہ دیا جارہا تھا اس کے برعکس حکمران اتحاد کے رہنماﺅں نے انہیں واضح طور پر جب بتا دیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے آئندہ پالیسی پارلیمنٹ میں بنے گی اور فرد واحد کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی تو جارج ڈبلیو بش نے امریکی قانون کے تحت پاکستان کو امداد فراہمی پر عائد پابندیاں ختم کرنے کی ہدایت کردی اس طرح پاکستان کو تیس کروڑ ڈالر امداد ملنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
 گو کہ امریکا ایک سپر پاور ہے اور اس کا کردارپاکستان سے ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا لیکن موجودہ حالات میں پاکستان سے اچھے تعلقات اس کی ضرورت ہے نہ کہ پاکستان کی۔ ہمارے حکمرانوں کو اب امریکیوں سے برابری کی سطح پر بات چیت کرنا ہوگی امریکی تسلط سے نکلنے کیلئے یہ ایک موزوں موقع بھی ہے پاکستانی عوام نے سابق حکمرانوں کی امریکا نواز پالیسیوں سے تنگ ہو کر ہی نئی قیادت کو مینڈیٹ دیا ہے لہٰذا عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اب قومی مفادات کو ہر گز داﺅ پر نہ لگایا جائے۔پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور عوام کو امن فراہم کرنے پر اگر امریکا ناراض ہوتا ہے تو اسے اب ناراض کر ہی لیا جائے آخر کب تک اس کی ناز برداریاں اٹھائی جائیں گی۔ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر مشکل وقت میں امریکا نے پاکستان کاساتھ چھوڑ کر ہمارے دشمنوں کا ساتھ دیا۔ خطے کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اب ایران اور چین کو ترجیح دینی چاہئے یہی ہمارے اور پڑوسی ممالک کے حق میں بہتر ہے۔
 امریکی اہلکاروں نے پشاور میں گورنر اویس احمد غنی سے ملاقات کی اور لنڈی کوتل چھاﺅنی کا بھی دورہ کیا۔ امریکی وفد نے خیبر ایجنسی کے عمائدین سے طویل مذاکرات کئے جس میں عمائد ین نے امریکی اہلکاروں سے مطالبہ کیا کہ قبائلیوں کو روزگار ¾ تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اور بےروزگار قبائلیوں کو امریکا و یورپی ممالک کے ویزے دیئے جائیں امریکی وفد نے عمائدین کو شمالی علاقہ جات میں امن کی بحالی ¾ روزگار کی فراہمی اور پسماندگی کے خاتمے کیلئے فوری اور عملی اقدامات اٹھانے کی یقین دہائی کرائی۔ یہ بات ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کہ امریکی حکام آئیں ہمارے ملک میں جہاں چاہیں دندناتے پھریں اور ہمارے عوام کو امن ¾ روزگار اور پسماندگی کے خاتمے کے عندیئے دیں یہ سب کچھ تو ہماری منتخب حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یہ سہولیات بہم پہنچائے۔کیا قبائلی علاقے امریکا کی کوئی ریاست ہیں ؟
گزشتہ دو ماہ کے دوران قبائلی علاقہ جات میں امریکی حملے کافی بڑھ چکے ہیں اور کافی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ موجودہ دنوں میں امریکی میڈیا میں اس طرح کی خبریں بھی شائع ہورہی ہیں کہ نیٹو فورسز کو قبائلی علاقوں میں براہ راست کارروائی کی اجازت مل گئی ہے۔امریکی اہلکاروں کے موجودہ دورے کے بارے میں دفاعی تجزیہ نگار یہی کہہ رہے ہیں کہ امریکا قبائلی علاقوں میں مستقبل قریب میں کوئی بڑا آپریشن کرنے والا ہے اسی لئے ہنگامی طور پر ان علاقوں کا دورہ کیا گیا اور حکومتی عہدیداروںاور سیاسی قائدین سمیت قبائلی عمائدین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے منع کرنے کے باوجود اگر امریکی اہلکار اسلام آباد پہنچ ہی گئے تھے تو انہیں وفاقی دارالحکومت تک محدود رکھا جاتا۔ ایک ایسا شخص جو کہ امریکی خفیہ اداروں کی سربراہی کر چکا ہواسے صوبہ سرحد اور سندھ میں دوروں کی اجازت دینا کسی طرح بھی قابل ستائش عمل نہیں ۔روانگی سے قبل نیگروپونٹے کی طرف سے انتہا پسندوں سے مذاکرات کا امکان مستردکرنا بھی اپنے اندر کئی سوالات رکھتا ہے۔


**************************