اگر حساب لگایا جائے تو اسرائیل غزہ میں تقریباً ہر
پانچ سے سات منٹ میں ایک فضائی حملہ کرتا ہے۔ایسی صورتحال میں وہاں کسی کا
گھر سے باہر نکلنا ممکن نہیں اور باہر چلنا پھرنا محفوظ نہیں۔
غزہ میں ہماری تنظیم کے کارکن اب بھی موجود ہیں
اور میری ان سے ہر روز ٹیلی فون پر بات چیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ میری وہاں
ہماری تنظیم کے ساتھ کام کرنے والی مقامی تنظیموں سے بھی بات ہوتی ہے۔

ہسپتالوں میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وہاں تیل ختم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنریٹر نہیں چل سکتے اور ادویات ختم ہو رہی ہیں۔


مصطفیٰ کو جب بھی اپنے فصل لینی ہو توانہیں بفر
زون میں جانا پڑتا ہے اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ وہ فصل حاصل نہیں کر
پاتے، اور اس وقت جاری جنگ کی وجہ سے بفر زون سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اب
بھی مصطفیٰ کے مویشی بفر زون میں چارے کے لیے نہیں جا سکے گے، اور ان کو
گھر کے

اسرائیلی کارروائی سے پہلے بھی غزہ میں لوگوں کے لیے زندگی بسر کرنا مشکل تھا کیونکہ اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔
میں پہلی دفعہ غزہ دو سال پہلےگیا تھا۔
جب میں اسرائیل کی سرحدی چیک
پوائنٹ سے گزر کر غزہ میں داخل ہونے لگا تو مجھے بلکل
بھی یقین نہیں ہوا کہ دنیا میں اب بھی ایسی جگہیں موجود ہے ۔آپ جب ایک
پنجرے کی مانند جگہ سے گزرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی
کتنی ناقابل قبول ہے اور بنیادی طور پر غزہ کو دنیا سے کتنا الگ تھلگ رکھا
گیا ہے۔

غزہ کا دنیا سے کوئی رابط نہیں ہے۔اس صورتحال میں
غزہ سے کسان اور تاجر
دنیا سے
سامان اندر غزہ میں آ سکتا ہے، اس کے علاوہ وہ تمام لوگ جو بیمار ہوتے ہیں
اور جنہیں ہسپتال میں فوری جانے کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں اس کے لیےاجازت
لینا پڑتی ہے۔ کئی بار انہیں بروقت اجازت بھی نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ غزہ میں پانی، انجینئیرنگ اور تعمیراتی سامان دستیاب نہیں ہے اور اس کی وجہ سے اب بھی لوگ ٹوٹے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔
نشانت پانڈے
کنٹری ڈائریکٹر آکسفیم، اسرائیل
1 comment:
Very sad to see so many little children killed by cruel barbaric zionist forces.May All Mighty Allah take revenge
Post a Comment